تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی کو 7ماہ بعد 7روز بعد جیل سے رہا کر دیاگیا

رہائی کی اطلاع ملتے ہی کارکنان مسجد رحمت اللعالمین پہنچ گئے ،آمد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے استقبال کیا کارکنان لبیک یارسو ل اللہ کے نعرے لگاتے رہے ، سعد رضوی نے والد کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی

جمعرات 18 نومبر 2021 19:00

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 نومبر2021ء) تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ حافظ سعد حسین رضوی کو 7ماہ بعد 7روز بعد کوٹ لکھپت جیل سے رہا کر دیاگیا،رہائی کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں کارکنان مسجد رحمت اللعالمین پہنچ گئے اور سعد رضوی کی آمد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے ان کا پرتپاک استقبال کیا ، اس موقع پر کارکنان لبیک یارسو ل اللہ کے نعرے لگاتے رہے ، سعد رضوی نے رہائی کے بعد اپنے والد خادم حسین رضوی کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی ۔

تفصیلات کے مطابق تحریک لبیک پاکستان سے طے پانے والے معاہدے میں پیشرفت ہوئی ہے اور حکومت نے تحریک لبیک کے سربراہ صاحبزادہ حافظ سعد حسین رضوی کو رہا کر دیاہے ۔رہائی کی خبر ملتے ہی بڑی تعداد میں کارکنان جماعت کے مرکز پہنچنا شروع ہو گئے اور لبیک یارسو ل اللہؐ کے نعرے لگاتے رہے ۔

(جاری ہے)

سعد رضوی کی آمد پر کارکنان نے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے پرتپاک استقبال کیا ۔

سعد رضوی کی رہائی اور استقبال کی وجہ سے چوک یتیم خانہ ملتان روڈ پرٹریفک کا نظام تعطل کا شکار رہا ۔تحریک لبیک کی مرکزی قیادت بھی سعد حسین رضوی کے استقبال کے لئے موجود تھی ۔ سعد رضوی نے رہائی کے بعد اپنے والد علامہ خادم حسین رضوی کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی ۔سعد رضوی اپنے والد مولانا خادم حسین رضوی کے آج جمعہ سے شروع ہونے والے عرس کی تقریبات میں شریک ہوں گے ،خادم حسین رضوی کا عرس 21 نومبر تک جاری رہے گا۔

یاد رہے کہ تحریک لبیک نے حکومت کو فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے 20 اپریل تک کا وقت دیا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک لبیک کی جانب سے ممکنہ مظاہروں کو مدنظر رکھتے ہوئے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے 11 اپریل کو سعد رضوی کو حراست لیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیش نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔ یکم اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔

بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عملدرآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو ٹی ایل پی نے حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔ بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ بعدازاں 28 اکتوبر کو بھی مریدکے اور سادھوکی کے قریب مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 4 اہلکار شہید اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔گزشتہ ماہ حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا جس میں طے پایا گیا تھا کہ ٹی ایل پی لانگ مارچ اور پر تشدد مظاہروں کو چھوڑ کر ملکی سیاست میں حصہ لینے کیلئے آزاد ہو گی۔

مذاکرات میں وفاقی وزراء اور ممتاز عالم دین شریک تھے۔ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد وفاقی کابینہ کی طرف سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیم کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا جبکہ حکومت نے بھی سعد رضوی کے خلاف ریفرنس واپس لے لیا تھا جس کے نتیجے میں سعد رضوی کی رہائی عمل میں آئی ہے۔