تھر قحط یا بیابان نہیں بلکہ وسائل سے مالامال خطہ ہے، ،زرعی ماہرین

جمعرات 18 نومبر 2021 23:09

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 نومبر2021ء) سندھ کے زرعی ماہرین، سائنسدانوں اور سماجی رہنماؤں نے کہا ہے کہ تھر قحط یا بیابان نہیں بلکہ وسائل سے مالامال خطہ ہے، تھر میں زراعت اور جیوت پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی، تھر پوری دنیا میں ثقافت کے ذریعے پاکستان کی پھچان بنا ہوا ہے، سندھ حکومت تھر کی ترقی کیلئے زرعی گھریلو صنعت اور تھر کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کرے۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں تھر اسٹوڈنٹس کونسل اور اسٹوڈنٹ ٹیچرز انگیجمنٹ پروگرام کے زیراہتمام پھلے تھر فیسٹول کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کی، مین آڈیٹوریم ھال میں منعقدہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ تھر کو ترقی دینے کیلئے وہاں کی زراعت میں جدت لانی پڑے گی، اور زراعت اور لائیو اسٹاک میں نئے منصوبے تجویز دینے پڑیں گے، انہوں نے کہا کہ بارانی علاقوں میں زراعت کے بہت بڑے مواقع موجود ہیں، اس لیے تھر میں زرعی یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کیا گیا ہے، ہم تھر کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر تھر میں پیدا ہونے والی زرعی اور لائیو اسٹاک کی مصنوعات کو ملک کی بڑی منڈیوں تک دیکھنا چاہیں گے، شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے وائس چانسلر ڈاکٹر بھائی خان شر نے کہا کہ دنیا کے نظریات بدل چکے ہیں، پاکستان کے پاس دنیا میں ایکسپورٹ کرنے کیلئے جدید آلات یا ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ بڑی ٹیکنالوجی نہیں ہے، لیکن پاکستان کی زرعی مصنوعات اور دستکاری کو دنیا کے مختلف ممالک میں ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے اور سیاحت میں سرمایہ کاری ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ تھر کو صرف غربت اور ریگستان کی نظر سے دیکھنا نہیں چاہیے بلکہ اس کے برعکس تھر وسائل سے مالامال ہے، جسے پرکھنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا تھر میں زرعی تحقیق کی اشد ضرورت ہے، اب بھی تھر میں ایسے پودے اور جیوت موجود ہے، جن کے ابھی نام بھی طے نہ ہو سکے ہیں، اس کے لیے سندھ زرعی یونیورسٹی اور دیگر اداروں سے تحقیقات کرائی جائیں اور حکومت سندھ کو اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

شھید بینظیر بھٹو وٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ کے سابق وائیس چانسلر اور نامور وٹرینری ماہر ڈاکٹر جے مل دھنانی نے کہا کہ تھر کی زندگی اور کاروبار میں لائیو سٹاک اور زراعت کی بہت اہمیت ہے، تھر سے لاتعلقی کا سلوک ختم کرنا چاھئے، وہاں کے نوجوانوں کو تعلیم، اسکالرشپ، لائیو سٹاک اور زرعی وسائل پر تحقیق میں مشغول کرنے کیلئے ادارے اور حکومت سنجیدگی اختیار کریں، معروف سماجی رہنما اور سندھ رورل پارٹنر آرگنائزیشن کی سربراہ زاہدہ ڈیتھو نے کہا کہ تھر کی عورت دنیا کی بہادر ترین عورت ہے، وہ بہت تکالیف کا سامنہ کرتی ہیں، ساتھ ساتھ تھری خواتین قالین سازی، زراعت اور مویشی پالنے اور دستکاری کے ذریعے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، اس لیے وہاں کی لڑکیوں کو تعلیم اور تحقیق کی طرف آنا چاہیے تاکہ عورت کا بوجھ کم ہو سکے۔

پروفیسر محمد اسماعیل کمبھر نے کہا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی نے تدریس و تحقیق کے ساتھ ایک نئی روایات کا بنیاد ڈالا ہے، انہوں نے تھر فیسٹیول نہ صرف طلبا کے لیے ایک تفریحی پروگرام ہے بلکہ اس کے ذریعے موجود مسائل اور مواقع کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سندھ نور محمد سومرو، سماجی رہنما ماروی اعوان، ڈینز ڈاکٹر قمرالدین چاچڑ، ڈاکٹر اعجاز علی کھوہارو، ڈاکٹر سید غیاث الدین شاہ راشدی، ڈاکٹر نعمت اللہ لغاری، ڈاکٹر جان محمد مری، ڈاکٹر عبداللہ آریجو، ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ، ڈاکٹر الطاف سیال، ڈاکٹر سید ضیا الحسن شاہ اور دیگر موجود تھے، دوسری جانب تھر فیسٹیول کے دوران تھری لباس، تھری سبزیوں اور پھلوں، کاشت اور تھری موروثی گھریلو سامان کی نمائش اور اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، جس کا افتتاح کیا گیا، پروگرام میں آرتی، تھری موسیقی، علامتی شادی رسومات ، رقص اور ٹیبلوز بھی پیش کیے گئے، جبکہ شنکر سنگھ سوڈھو، سریش کمار، احمد علی راہمون، نند لال بھیل، پارومل مہارانی، بلاول بانبھن، ثمن دیوی، کائنات ہالیپوٹو، سورٹھ اور دیگر نے تقریب میں شرکت کی