پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانبداری، عوامی نیشنل پارٹی کا سپیکر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا تاریک اور شرمناک دن تھا،سپیکر نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں کسٹوڈین آف ہاس کی بجائے پی ٹی آئی کے رکن کا کردار اد کیا جو قابل مذمت ہ

جمعرات 18 نومبر 2021 23:13

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 نومبر2021ء) عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کی ترجمان ثمر ہارون بلور نے کہا ہے کہ کل پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا تاریک اور شرمناک دن تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں کسٹوڈین آف ہاس کی بجائے پی ٹی آئی کے رکن کا کردار اد کیا جو قابل مذمت ہے۔ اجلاس میں سپیکر اسد قیصر کے متنازعہ کردار کی میڈیا، عوام اور پوری دنیا شاہد ہے۔

حکمران جماعت نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اے این پی مطالبہ کرتی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی سے متنازعہ کردار پر فوری طور پر مستعفی ہوں۔ پشاور پریس کلب میں انفارمیشن کمیٹی کے اراکین رحمت علی خان اور طارق افغان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور نے کہا کہ اجلاس میں جعلی قانون سازی کیلئے جن ہتھکنڈوں کا سہارا لیا گیا اور جس طریقے سے گنتی کی گئی وہ جمہوریت کے منافی ہے۔

(جاری ہے)

چور دورازے سے قانون سازی کیلئے ملکی تاریخ کی نایاب گنتی کی گئی۔ غیر منتخب مشیروں کو بھی اسمبلی فلور پر بلاکر گنتی میں شمار کیا گیا۔ پارلیمان میں قانون سازی کیلئے آئین کی رو سے 222 ووٹ درکارہوتے ہیں، حکمران جماعت نے مشیروں سمیت 221 ووٹ لیکر قانون پاس کرالیا۔ حکمران جماعت نے نہ صرف آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائیں بلکہ منتخب اراکین کی بے توقیری بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین دراصل "انجینئرڈ ووٹنگ مکینزم "اور عوام کے ووٹ چوری کرنے کا نیا منصوبہ ہے۔ موجودہ ترقیاتی دور میں دنیا بھر میں صرف آٹھ ممالک میں ای وی ایم کا نظام رائج ہے۔ چوری کے راستیاقتدار پر مسلط پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستانی کی کوئی بھی سیاسی جماعت ای وی ایم کو شفاف ماننے کیلئے تیار نہیں۔ ای وی ایم پر عوام کے ٹیکسز کے پیسے خرچ کرنے کی بجائے حکومت بجلی، گیس، آٹے اور چینی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرے۔

پاکستان کے عوام بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ کپتان صاحب ای وی ایم لانے کیلئے بضد ہیں۔ جو نظام پاکستان کے پارلیمان میں کام نہ کرے وہ دور و دراز علاقوں میں کیسے کام کرے گی موجودہ حکومت پاکستان کے عوام کو اذیت دینے کیلئے مسلط کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ای وی ایم کے ساتھ انتخابات کروانے سے انکاری ہے۔

جب الیکشن کا انعقاد کروانے اور اسکی نگرانی کرنے والے ادارہ ہی اس نظام سے معذرت خواہ ہے تو کس بنیاد پر اسکو عوام پر مسلط کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اگر حکومت ای وی ایم کو لانے اور شفاف انتخابات کروانے کیلئے اتنی ہی سنجیدہ ہے تو بلدیاتی انتخابات میں اسکوبطور ٹرائیل کیوں نہیں آزمایا جاتا حکومت کے دعوے بھی عیاں ہوجاتے اور اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے تحفظات بھی دور ہوجاتے۔

عوام بھی اس کو دیکھ لیتے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا۔ ثمر ہارون بلور نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو کل قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت نے این آر او دے دیا ۔حکومت نے قانون سازی کرکے بھارتی جاسوس کو راہ فرار فراہم کیا۔ ماضی میں اسی حکومت کے اراکین مخالفین پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات لگایا کرتے تھے۔ کل پورے پاکستان نے دیکھا کہ کون ملک کا وفادار ہے اور کن کی ہمدریاں ملک دشمنوں کے ساتھ ہیں۔

اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کو ایک نہ ایک دن کرسیوں سے اتر نا بھی پڑے گا۔ پاکستان کے عوام اور ملکی ساکھ کے ساتھ جوکھیل موجودہ حکمرانوں نے کھیلا ہے ایک دن اس کا حساب ہوگا۔انہوں نیکہا کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو ہر قسم کے تحقیقات سے استثنی کا قانون لاکر حکومت نے واضح کردیا کہ معیشت کن کے ہاتھوں میں ہے۔ ایک فرد واحد کیلئے اس طرح کا قانون لاکر کس کی خوشنودی کی جارہی ہی سہاروں کی مدد سے مسلط حکومت اور ان کے اتحادیوں کو ٹیلی فون کالز کیذریعے دبا ڈال کر اجلاس میں بلایا گیا۔

اراکین کو زبردستی اجلاس میں لانے سے "ایک پیج" کی حقیقت بھی عوام پر واضح ہوگئی ہے۔ کب تک اس طرح کے اقدامات سے جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں گی۔ وہ دن دور نہیں جب ملک میں حقیقی جمہوریت ہوگی اور پارلیمان سب سے مقدس ادارہ ہوگا۔بلدیاتی انتخابات بارے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کیلئے اپنے ہی قانون سے ضلعی حکومتوں کا خاتمہ کرکے پسپائی اختیار کرلی ہے۔

بلدیاتی نظام سے ضلعی حکومتوں کا خاتمہ ایک غیر آئینی اور غیر منطقی اقدام ہے۔منتخب عوامی نمائندگان کو اختیارات سے محروم رکھنا تحریک انصاف کا ایجنڈا ہے۔ عوام کو اختیارت سے محروم رکھ کر ڈی سی کو اختیارات دینے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔بلدیاتی انتخابات میں نچھلی سطح پر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے ذریعے حکومت راہ فرار اختیار کررہی ہے۔

خیبر پختونخوا میں آٹھ سال سیبرسراقتدار حکمران اپنے ہی انتخابی نشان سے گھبر رہے ہیں۔ حکومت اپنے ہی نشان کے ساتھ عوام کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہے۔ حکومتی بوکھلاہٹ نے فیس بک پر مثالی تبدیلی لانے کا پول کھول دیا ہے۔ اے این پی مطالبہ کرتی ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق نچھلی سطح پر بھی جماعتی بنیادوں پر انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ اے این پی بلدیاتی انتخابات کیلئے پوری طرح سے تیار ہے۔