درآمدی اشیاء کی زائد قیمتوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک

ستمبراور اکتوبرمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خدشات سے زائد رہا، غیرملکی ادائیگیوں سے روپیہ دباؤ کا شکار رہا، مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے زری پالیسی کو معمول پر لانے کی ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی جاری

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعہ 19 نومبر 2021 19:55

درآمدی اشیاء کی زائد قیمتوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک
کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 نومبر 2021ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ درآمدی اشیاء کی زائد قیمتوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، غیرملکی ادائیگیوں سے روپیہ دباؤ کا شکار رہا، مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے زری پالیسی کو معمول پر لانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے اگلے دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے، مانیٹری پالیسی اجلاس میں شرح سود 8.75 فیصد کر دیا گیا۔

شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود 150 بیسز پوائنٹس بڑھا دیا۔ اس فیصلے سے اس نقطہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے کہ پچھلے اجلاس کے بعد مہنگائی اور توازن ادائیگی سے متعلق خطرات بڑھے ہیں جبکہ نمو کا منظرنامہ مزید بہتر ہوا ہے۔ چونکہ خطرات نمو سے مہنگائی اور جاری کھاتے کو توقع سے زیادہ تیزی سے منتقل ہورہے ہیں اس لیے اب مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے زری پالیسی کو معمول پر لانے اور استحکام کو نمو کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے زیادہ تیز اقدامات کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

آج کا ریٹ میں اضافہ اس سلسلے میں اہم قدم ہے۔ آگے چل کر ایم پی سی نے اعادہ کیا کہ قدرے مثبت حقیقی شرح سود کے حصول کا حتمی ہدف تبدیل نہیں ہوا اور، آج کے اقدام کے پیش نظر، توقع ہے کہ اس کے لیے محتاط اقدامات کیے جائیں گے۔ مانیٹری پالیسی میں بتایا گیا کہ درآمدی اشیاء کی زائد قیمتوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، ستمبراور اکتوبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خدشات سے زائد رہا، غیرملکی ادائیگیوں سے روپیہ دباؤ کا شکار رہا، مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے زری پالیسی کو معمول پر لانے کی ضرورت ہے،مہنگائی اور توازن ادائیگی سے متعلق خطرات بڑھے ہیں۔

دوسری جانب سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے شرح سود میں اضافے کو ملکی صنعت کیلئے پھانسی کا پھندہ قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ فیصد سود بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی، شرح سود بڑھانے سے صنعتی پیداوار میں کمی اور حکومتی اخراجات بڑھیں گے، نجی شعبے کو مزید مشکلات اورسست روی کا سامنا کرنا پڑےگا۔