سندھ اسمبلی نے گریٹر تھل کینال ٹو اور جلال پور کینال کی تعمیر کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی

قراداد کی منظوری کے موقع پر پی ٹی آئی اراکین ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے ارکان کی قرارداد کی حمایت کی

منگل 23 نومبر 2021 00:36

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 نومبر2021ء) سندھ اسمبلی نے پیر کو اپنے اجلاس میںگریٹر تھل کینال ٹو اور جلال پور کینال کی تعمیر کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔قرارداد صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو نے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ کی مخالفت کے باوجود پنجاب میں متنازعہ کینال تعمیر کی جارہی ہیں۔ اس اقدام سے سندھ بنجر ہوجائیگا۔

قراداد کی منظوری کے موقع پر پی ٹی آئی اراکین ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے ارکان کی قرارداد کی حمایت۔ جس پرجام خان شورو نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دوست اتنی اہم قرار داد پر چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا انحصار پانی پر ہے۔انہوں نے کہا کہ 1937 پر ایک کمیٹی بنی تھی۔اس میں بھی یہ تھا اکہ سندھ کی اجازت کے بغیر سندھ کا پانی پر کچھ نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

پانی کی ایلوکیشن سیٹ ہوئی تھی۔پاکستان بننے کے بعد ہمارے پاس دو بیراج بنے اور ان کی تعمیر سیاسی معاہدے کے تحت ہوئی۔ون یونٹ کے قیام کے بعد ہماری صوبائی حیثیت ختم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تین دریا دشمن ملک کو بیچ دئیے جاتے ہیں۔یہ تاریخ کا سیاہ دھبہ ہے۔ہماری اجازت کے بغیر وہ دے دئیے گئے۔انہوں نے کہا کہ فضل اکبر کمیشن بنا تو اس پر اتفاق پیدا نہ ہو سکا۔

1991 پر آبی معاہدہ ہوتا ہے۔اس کے مطابق سندھ کو 48 ایم ایف ملا۔اس وقت چار وزرائ اعلیٰ نے ارسا ایکٹ بنایا۔اس پر عملدرآمد کرایا جائے۔ہمیں آبی معاہدے کے مطابق پانی نہیں دی جارہا۔20 سال میں صرف دو سال پانی موجود تھا۔لیکن ہر سال پانی کی شارٹیج دیکھا رہے ہیں۔ہماری وہ شارٹیج 50 فیصد تک چلی گئی۔دوسری طرف یہ نئے کینال بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جلالپور کینال کے زریعے پنجاب میں نئی زمین آباد کررہے ہیں۔

یہاں ٹھٹھہ کی زمینیں بنجر ہورہی ہیں۔28 اکتوبر کو یاک لیٹر آیا کہ گریٹر تھر کینال فیز ٹو بناآرہے ہیں۔اس سے بھی نئی زمین کو آباد کررہے ہیں۔جام خان شورو نے کہا کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ پانی کی شارٹیج ہے۔دوسری جانب 20 لاکھ ایکٹر نئی زمین آباد کرنے جارہے ہیں۔میں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کا مشکور ہوں جو اس معاملے پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری 30 لاکھ ایکٹر زمین بنجر ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم کے محمد حسین کی قرارداد میں ترمیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت وفاق سے قانونی سطح پر اعتراض کرے۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے مفاد پر ہم کبھی سودے بازی نہیں کریں گے حالانکہ ہماری اور پیپلز پارٹی کی سیاست بالکل الگ الگ چیزیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں کو بھی ان کی ضروریات کے مطابق پانی ملنا چاہیے۔

جب تک سندھ صوبہ اس پر اتفاق نہ کریں آپ یہ تعمیر شروع نہ کریں۔ پیپلز پارٹی کے ریاض شاہ شیرازی نے کہا کہ وفاق سمجھ رہا ہے کہ وہ 17 لاکھ ایکٹر زمین آباد کرے گا۔ پیپلز پارٹی کے امداد پتافی نے کہا کہ اس اسمبلی کی قرارداد سے پاکستان بنا۔اس اسمبلی کی قرارداد پر کالا باغ ڈیم نہیں بنا۔انشاء اللہ اس اسمبلی کی قراداد سے یہ کینال بھی نہیں بنیں گے۔

ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کے تمام مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ سے خوشی سے کھڑی رہی ہے۔ہم نے اس آبی معاہدے میں سندھ کو پانی کا جائز حصہ ملنے کے لئے اپنا جائز کردار ادا کیا۔ہم حکومت میں تھے تو ہم نے اس وقت بھی سندھ کا ساتھ دیا۔آج بھی ہم وفاقی حکومت میں ہیں۔آج بھی ہم سندھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کراچی کے لوگ واٹر بورڈ کو پانی کے پیسے ادا کرتے ہیں۔

لیکن ٹینکرز سے پانی خریدتے ہیں۔ہم پیپلز پارٹی کی حکومت سے یہ گلہ کرتے آرہے ہیں۔ہر بار وزیر اعلیٰ نے 65 ایم جی ڈی پانی پر وعدہ کیا۔لیکن آج تک کراچی کو یاک قطرہ اضافی پانی نہیں ملا۔جب وسائل کی تقسیم کی بات ہوتی ہے تو کراچی کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔لیکن آپ کی حکومت کراچی کے لوگوں کا گلا گھونٹ رہی ہوتی ہے جعلی ڈومیسائل سے کراچی کے نوجوانوں کا حق تلفی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیاقت آباد میں اسکول بند تو ہوئے ہیں لیکن ایک اسکول نہیں بنا ہے۔ہم4 سو ارب روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں۔لیکن کراچی کے صاف پانی نہیں دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ کراچی کو سندھ کا شہر سمجھیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہوفاق میں بیٹھے ہوئے لوگ آگے کس کس طریقے سے سندھ کو ماریں گے۔

ہم نے پہلے بھی اپنی بات منوائی تھی۔پہلے بھی جب تھل کینال بن دیاتھا ہم نے احتجاج کیا۔صدیوں سے پانی کا مسئلہ چل رہا ہے۔انگریزوں کے زمانے میں کہا گیا کہ پہلا حق سندھ کا ہے۔لیکن یہ سندھ کو مایوس کررہے ہیں۔پیپلز پارٹی والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے جدوجہد کررہے ہیں۔ہمیں تنگ نہ کریں۔کراچی صرف ایم کیو ایم کا نہیں ہمارا بھی ہیکراچی کے لیے کیوں نہیں کریں گے۔بعدازاں ایوان نے قراداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔