چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور باشندوں کے حراستی مراکز کی نئی فوٹیج آگئی

فوٹیج میں سنکیانگ میں ایغور آبادی کے خود مختار علاقے میں قائم ایک درجن سے زائد ریاستی حراستی کیمپوں کی نشاندہی کی گئی ہے

منگل 23 نومبر 2021 11:35

سنگیانگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2021ء) چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیتی باشندوں کے لیے بنائے گئے حراستی مراکز سے متعلق ایک یوٹیوب ویڈیو کی صورت میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ ماہرین نے اس ویڈیو کو ایغور اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کا نیا ثبوت قرار دیا ہے۔چینی صوبے سنکیانگ کے شہر دابان چینگ میں قائم کردہ ایغور باشندوں کا ایک کیمپ جسے سرکاری طور پر پیشہ وارانہ تربیت کے مرکز کا نام دیا گیا ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی ماہرین نے کہا ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبریں بالکل بے بنیاد تو کبھی نہیں تھیں۔ مزید یہ کہ یہ فوٹیج ایک طرف اگر چینی حکام کے ایغور باشندوں پر کریک ڈاؤن کا ایک نیا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس فوٹیج کو جاری کرنے والے چینی ویڈیو بلاگر کی اپنی سلامتی بھی اب خطرے میں ہے۔

(جاری ہے)

یہ یوٹیوب ویڈیو تقریبا بیس منٹ دورانیے کی ہے اور اس میں سنکیانگ میں ایغور آبادی کے خود مختار علاقے میں قائم ایک درجن سے زائد ریاستی حراستی کیمپوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔یہ یوٹیوب ویڈیو ایک ایسے چینی باشندے نے بنائی ہے، جس کا نام گوآن گوآن ہے۔ اس نے آن لائن امریکی نیوز پورٹل بزفیڈ نیوز پر اس چینی صوبے میں ایغور آبادی کے لیے قائم کردہ حراستی مراکز کے بارے میں بہت سے رپورٹیں پڑھی تھیں۔

اس کے بعد گوآن گوآن نے سنکیانگ تک کا سفر کیا اور اس دوران یہ ویڈیو بنائی، جو بعد ازاں یوٹیوب پر جاری کر دی گئی۔بزفیڈ نیوز کے لیے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے سنکیانگ میں ایسے کیمپوں کے نقشے تیار کرنے والی ایلیسن کِلنگ کے مطابق یہ فوٹیج انہی حقائق کی تصدیق کرتی ہے، جن کے بارے میں بہت سے غیر ملکی ماہرین کو یقین ہے کہ وہ سنکیانگ میں چینی حکام کی طرف سے ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ زیادتیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایلیسن کِلنگ نے کہا جب آپ سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تو آپ دیگر ذرائع سے ملنے والی ان معلومات پر بھی انحصار کرتے ہیں، جو مثال کے طور پر اب اس فوٹیج سے بھی ملتی ہیں۔ ایلیسن کِلنگ نے کہاکہ گوآن گوآن کی ویڈیو اس امر کی تصدیق میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اقلیت کے لیے جیلوں کی طرح کے ایسے کئی حراستی مراکز قائم ہیں۔

امریکا میں اٹلانٹک کونسل کے اسٹریٹیجک لِٹیگیشن پروجیکٹ کے ایک سینیئر فیلو ریحان اسد بھی ہیں۔ وہ خود بھی ایغور نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی حقوق کے کارکن ہونے کے علاوہ ایک وکیل بھی ہیں۔ یہ نئی ویڈیو سنکیانگ میں جاری کریک ڈاؤن کو دستاویزی طور پر ریکارڈ کرنے کے عمل ہی کا حصہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ویڈیو سے چینی ریاست کے اس پروپیگنڈا کی نفی بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق ایغور باشندے تو بس بہت خوش ہیں۔