غذائی خودکفالت کی منزل کے حصول کے لئے انڈسٹری اکیڈیمیا تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ناگزیر ہے:صوبائی وزیر زراعت سید حسین جہانیاں گردیزی

منگل 23 نومبر 2021 17:46

غذائی خودکفالت کی منزل کے حصول کے لئے انڈسٹری اکیڈیمیا تعلقات کو مضبوط ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 نومبر2021ء) صوبائی وزیر زراعت سید حسین جہانیاں گردیزی نے کہا ہے کہ غذائی خودکفالت کی منزل کے حصول کے لئے انڈسٹری اکیڈیمیا تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ناگزیر ہے جس کے لئے زرعی سائنسدانوں کو کاشتکاروں کے مسائل کے حل کے لئے تمام کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں اینگرو لرننگ سنٹر کے افتتاح کے موقع پر کیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اس سال ڈیڑھ من فی ایکڑ گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور حکومتی انقلابی اقدامات کی وجہ سے اگلے سال تین من فی ایکڑ اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی گندم بڑھاؤ مہم میں زرعی یونیورسٹی کے 22ہزار طلبہ نے حصہ لیا جس سے نہ صرف کاشتکاروں کو جدید طریقہ کاشت سے روشناس کروانے میں مدد ملی بلکہ طلبہ کو کلاس رومز سے نکل کر کاشتکاروں کے اصل مسائل سے آگاہی بھی حاصل ہوئی۔

(جاری ہے)

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 30فیصد کسان تصدیق شدہ بیج کی سہولت سے مستفید ہو پاتے ہیں جس کو جلد ہی 50فیصد تک لانے کے لئے تمام وسائل مہیا کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دس سے بیس فیصد تک اجناس فصل کی کٹائی کے دوران ضائع ہو جاتی ہے جس پر قابو پانے کے لئے جدید مشینری کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زراعت کو منافع بخش، فوڈ سکیورٹی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لئے انقلابی اقدامات کر رہی ہے تاکہ نچلی سطح پر غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی نئی راہیں کھولی جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کو زرعی علوم کے حوالے سے ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کے زرعی سائنسدانوں نے زراعت کی ترقی کے لئے بے پناہ خدمات سرانجام دی ہیں اور توقع ظاہر کی کہ آنے والے سالوں میں بھی زراعت کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 1947ء میں ساڑھے تین کروڑ تھی جب کہ اب بڑھ کر 22کروڑ تک پہنچ گئی ہے اتنی بڑی آبادی کو خوراک کی فراہمی کے لئے زرعی سائنسدانوں کی خدمات قابل تحسین ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کر کے نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ ایکسپورٹ کر کے کثیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فوڈ سکیورٹی کے حصول کے لئے قومی سطح پر گندم کی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے جس کے لئے وزیراعظم پاکستان نے تین سو ارب کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت 12ارب 59کروڑ روپے گندم کی منظورشدہ اقسام کے بیج و دیگر زرعی مداخل سبسڈی کی فراہمی کے لئے مختص کئے ہیں تاکہ ملکی سطح پر گندم کی فی ایکڑ پیداوار کو یقینی بنایا جا سکے۔

حکومت پنجاب نے کیش ٹرانسفر کی صورت میں براہ راست سبسڈی کی فراہمی کے لئے کسان کارڈ کا اجراء کیا ہے جس کے تحت اب تک پانچ لاکھ سے زائد کاشتکار اس کارڈ کے حصول کے لئے رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ انہوں نے کاشتکاروں سے گزارش کی کہ وہ جلد از جلد کسان کارڈ کی رجسٹریشن مکمل کروائیں تاکہ وہ سبسڈی سے مستفید ہو سکیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ بدقسمتی سے رواں سال تین ملین ٹن گندم درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ خوردنی تیل، چینی سمیت کئی اجناس کی درآمد ایک زرعی ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 40فیصد سے زائد آبادی غذائی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں اگر ہم گندم اور مکئی کی آمیزش سے آٹا تیار کریں تو اس سے غذائی معیار میں بھی بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں اور پودوں میں زنک کی کمی میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طریقہ کاشت کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہے اگر زرعی سائنسدانوں کی سفارشات پر عمل کیا جائے تو پیداوار میں دوگنا تک بڑھوتری کی جا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے مگر بدقسمتی سے ہم ان کا عقلمندانہ استعمال نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو نفع بخش کاروبار بنانے کے لئے جدید رحجانات کو اپنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس سے نہ صرف فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے گا بلکہ تخفیف غربت بھی ممکن ہو پائے گی۔ انہوں نے زرعی سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے زرعی مسائل کے مقامی حل تلاش کریں تاکہ پیداوار میں اضافے سے زراعت کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ گندم بڑھاؤ مہم کے تحت طلبہ نے گاؤں گاؤں جا کر کسانوں کو جدید رحجانات سے آگاہ کیا ہے جس کی بدولت پیداوار میں اضافے سے زرعی ترقی کی نئی کھولی جا سکیں گی۔ اینگرو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نادر سالار قریشی نے کہا کہ اس سنٹر کے قیام سے تحقیقی ماحول اور طلبہ کی استعداد کار میں بڑھوتری کے لئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لائی جائیں گی۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنسدان سائنسی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے قابل عمل مصنوعات تیار کریں گے جس کو زراعت کے میدان میں عام کرتے ہوئے دورحاضر کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تغیرات کو برداشت کرنے والی اقسام پیدا کی جانی چاہئیں۔ ڈین کلیہ زراعت ڈاکٹر امان اللہ ملک نے کہا کہ گندم کی بوائی مہم کے تحت 22000 طلباء نے حال ہی میں پانچ ڈویژنوں کا دورہ کیا جن میں گوجرانوالہ، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد اور ساہیوال شامل ہیں تاکہ کاشتکار برادری کو گندم پر جدید تحقیق اور جدید رجحانات سے آگاہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس میں بہتری لاتے ہوئے ہی غربت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اینگرو کے چیف کمرشل آفیسر خسرو نادر نے کہا کہ اس سنٹر کے قیام کا مقصد ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوتے ہوئے زرعی ترقی کے لئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانا ہے۔ ڈی جی ایکسٹنشن ڈاکٹر انجم بٹر، پرووائس چانسلر ڈاکٹر انس سرور قریشی، ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر، ڈاکٹر یٰسین، ڈاکٹر عبدالحمید،ڈاکٹر قمربلال، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر ہارون زمان و دیگر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر سید حسین جہانیاں گردیزی نے گندم مہم کے طلبہ سے خطاب بھی کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کے تحت پودا بھی لگایا۔