سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور سے متعلق کیس میں کمشنر کراچی کو ایک ہفتے میں انہدام کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم

نسلہ ٹاور کو نیچے سے گرا رہے ہیں، کیا بنیادیں کمزور نہیں ہوں گی اس طرح تو پوری عمارت نیچے گر جائے گی، اگر کوئی حادثہ ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا ، چیف جسٹس

جمعہ 26 نومبر 2021 15:39

سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور سے متعلق کیس میں کمشنر کراچی کو ایک ہفتے میں ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 نومبر2021ء) سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور سے متعلق کیس میں کمشنر کراچی کو ایک ہفتے میں انہدام کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ دوران سماعت درمیان میں بولنے پر پولنگ چیف جسٹس نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم کو جھاڑ پلادی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہٹیں یہاں سے، کوئی سیاسی تقریر کی اجازت نہیں۔

میں معاوضے کی بات کرنا چاہتا ہوں، جسٹس قاضی امین احمد نے ریمارکس میں کہا کہ پلیز کوئی بات نہیں ہٹ جائیں یہاں سے۔جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے نسلہ ٹاور کیس کی سماعت کی۔ کمشنر کراچی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نسلہ ٹاور کو نیچے سے گرا رہے ہیں، کیا بنیادیں کمزور نہیں ہوں گی اس طرح تو پوری عمارت نیچے گر جائے گی، اگر کوئی حادثہ ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا کمشنر کراچی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، عمارتوں کو گرانے کا یہی طریقہ کار ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ نیچے سے گرانے کا فیشن کہاں سے آگیا کمشنر نے کہا کہ ہم انجینئر کی معاونت سے کرا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اوپری منزلوں پر انہدام بعد میں ہوگا۔ سماعت کے دوران حافظ نعیم الرحمن کی روسٹرم پر آکر بولنے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کون ہیں آپ جواب دیتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا میں جماعت اسلامی کراچی ہوں۔ مجھے تھوڑا سن لیں۔ چیف جسٹس نے برہم ہوکر کہا کہ ہٹیں یہاں سے، کوئی سیاسی تقریر کی اجازت نہیں، چیف جسٹس نے حافظ نعیم الرحمن کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔

چیف جسٹس نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کو چھاڑ پلادی۔ حافظ نعیم نے کہا کہ میں معاوضے کی بات کرنا چاہتا ہوں، جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا کہ پلیز، کوئی بات نہیں، ہٹ جائیں یہاں سے، حافظ نعیم نے کہا کہ سر معاوضہ کا کیا ہو گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم اس کا آرڈر کر چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کورٹ روم میں سیاست نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کیا انٹرسٹ ہی عدالت نے کمشنر کراچی ایک ہفتے میں انہدام کر کے رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ کے باہر حافظ نعیم الرحمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل ہم نسلہ ٹاور گئے تھے اور آج یہاں آنے کا کہا تھا۔ نسلہ ٹاور کے لوگوں کا مقدمہ یہاں لڑا۔ جماعت اسلامی نے اس کیس میں فریق بننے کا کہا ہے۔ مجموعی طور پر جو یہاں چل رہا ہے وہ زیادتی ہے۔

کراچی کے بڑے مسائل کی طرف سپریم کورٹ نہیں جارہی۔ کے الیکٹرک کا مافیا یہاں پر بیٹھا ہوا ہے۔ جعلی ڈومیسائل بنا بنا کر یہاں کے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ مارا جارہا ہے۔ حافظ نعیم نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ برباد ہوچکا ہے۔ وائس چانسلر کے معاملے پر بھی کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ نہ ایم کیو ایم نے کچھ کیا نہ ہی پیپلز پارٹی نے۔

سپریم کورٹ نے کے فور پر کوئی کام نہیں کررہی۔ یہ شہر ایک بے اختیار شہر بن کر رہ گیا ہے۔ ججز نے ہماری بات کو نہیں سنا۔ جماعت اسلامی ایک سنجیدہ جماعت ہے۔ بدقسمتی سے کورٹ کے پاس ٹائم نہیں تھا لیکن میں نے وعدے کیا تھا اس لئیے یہاں آگیا تھا۔ مجھے توہین عدالت کا ڈر نہیں ہے۔ کراچی کے حقوق دلوانے کے لئیے ہر حد تک جائیں گے۔ آج اگر یہاں آزاد ماحول میں بات ہورہی تو یہ بھی ہماری کوشش تھی۔

حافظ نعیم نے کہا کہ ہمارے کارکن جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کیخلاف ثبوت جمع کررہے تھے۔ جماعت اسلامی نے تمام قبضوں کے مقامات کی نشاندہی کی۔ اصل مجرموں کیخلاف کب کاروائی ہوگی۔ عام شہری ایک حد تک ہی جانج پڑتال کرسکتا ہے۔ اس شہر پر قبضہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سب سے زیادہ کیا ہے۔ ظلم ظلم ہی ہوتا ہے چاہے وہ عدالت ہی کرے۔ یہ مسئلہ کراچی کے تین کروڑ آبادی کا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے کہا ہم نے آرڈر کیا ہوا ہے۔ ہم نے کہا معاوضے کی ادایئگی کو یقینی بنایا جائے۔ متاثرین کو معاوضے کے لئے سندھ حکومت کو پابند کیا جائے۔ ہم نے طے کیا ہے معاملے میں فریق بننے کی درخواست دینگے۔ ہم نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔ مجموعی طور پر کراچی سے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ عدالتوں میں ایک دو پلاٹ کے کیسز چلائے جارہے ہیں۔ کراچی کے بڑے مسائل پر سپریم کورٹ میں عرصے سے سماعت نہیں ہورہی۔

سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانسٹ کے مسائل ہیں۔ کاغذات جمع کروائے جارے اور وقت لیا جارہا ہے۔ پانی کی شدید قلت ہے، کے فور کے لئے پندرہ ارب رکھے گئے۔ کے فور پر کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے جارہے۔ قانونی طور پر فریق بننے کے علاوہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کا ہی آپشن ہے۔ شہر کو بااختیار نہیں بنایا جارہا۔ ججز نے بات پوری نہیں کرنے دی یہ انکا اختیار ہوگا۔

کس قانون میں ہے کہ جمع پونجی لگانے والے کو کہا جائے کہ بلڈر سے پیسے لے لیں۔ ہم ہر مسئلے کا حل بھی پیش کرسکتے ہیں بدقسمتی سے عدالتوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ عدالت نے کہا آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہاں صرف کمزوروں کا احتساب کیا جارہا ہے۔ پوری کوشش کریں گے لوگوں کو انصاف دلوانے کے لئیے۔ بحریہ ٹان میں جن لوگوں کے ساتھ ظلم ہوا اسکا بھی کچھ نہیں کیا گیا۔

لوگوں کو بحریہ ٹان سے ہی ری فنڈ نہیں دلوایا گیا۔ جماعت اسلامی نے ان لوگوں کی بھی مدد کی تھی۔ لوگوں کا مقدمہ سڑکوں پر بھی لڑنے گے۔ مشرف کے زمانے میں اسی عدلیہ نے اسے قانونی بنایا تھا۔ محمد میاں سومرو کے زمانے میں شاہراہِ فیصل کی کمرشل کیا تھا۔ نعمت اللہ خان کے زمانے میں کسی ایمونیٹی پلاٹ پر قبضہ نہیں کیا گیا۔ ان کے زمانے میں لوگوں کو کمپنسیشن بھی دلوائی تھی۔

پرانی سبزی منڈی جب ختم کی تھی تو لوگوں کو جگہ بھی دلوائی تھی۔ نعمت اللہ خان نے اس شہر کو بنایا تھا۔ نعمت اللہ خان نے 2010 میں پارکوں اور رفاہی پلاٹس پر قبضوں کے خلاف پٹیشن دی تھی۔ جماعت اسلامی نے اس وقت پٹیشن دی تھی جب کوئی بولنے کی ہمت بھی مہیں کرتا تھا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ جس نے بھی افسران نے ناجائز جگہ یا تعمیر کروائی ہے کتنوں کیخلاف کارروائی ہوئی۔ کسی کو بھی ہٹایا جائے اسکو معاوضہ دیا جائے۔ جن لوگوں نے قبضہ کیا ان کے خلاف کارروائی کیجانی۔ طاقتور لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔