پاکستان میں تقریباً ہر پانچویں بھینس اور گائے حیوانے کی سوزش کا شکار ہونے لگی ہے ،شعبہ لائیو سٹاک

ہفتہ 27 نومبر 2021 13:38

پاکستان میں تقریباً ہر پانچویں بھینس اور گائے حیوانے کی سوزش کا شکار ..
فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 نومبر2021ء) شعبہ لائیو سٹاک میں ہونیوالی تازہ ترین تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر پانچویں بھینس اور گائے حیوانے کی سوزش کا شکار ہونے لگی ہے  ۔لائیو سٹاک و ڈیری ڈویلپمنٹ فیصل آباد کے ماہرین شعبہ اینیمل کلینیکل میڈیسن اینڈ سرجری نے  اے پی پی کو بتایا کہ  حیوانے کی سوزش کا بنیادی سبب بیکٹیریا ہے جو تھن کے سوراخ کے راستے حیوانے میں داخل ہو کر اس کی بافتوں میں اپنا مسکن بنا لیتا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ  سوزش حیوانا کی دو اقسام ہیں جن میں پہلی واضح سوزش حیوانا جبکہ دوسری مخفی سوزش ہے۔انہوں نے بتایا کہ واضح سوزش کی علامات میں ایک یا ایک سے زیادہ تھنوں اور حیوانے، دودھ کی پیداوار میں کمی، تیز بخار، تھنوں کے اندر ناڑ پڑ جانا اور دودھ کا نمکین ذائقہ شامل ہیں جبکہ مخفی سوزش حیوانہ میں متاثرہ جانور کے تھنوں، حیوانے اور دودھ کے اندر کسی قسم کی کوئی بھی علامت  یاتبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔

(جاری ہے)

انہوں نے حیوانہ کی سوزش کا نہایت ہی آسان اورکم خرچ طریقہ  تشخیص  متعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ  کسی برتن میں 1 پاؤ پانی میں 3چائے کے چمچ کپڑے دھونے والاسرف پاؤڈر حل کرلیں پھر جس گائے یا بھینس کے حیوانے میں مخفی سوزش کا پتہ چلانا مقصود ہو اس کے چاروں تھنوں کا دودھ سرف ٹیسٹ کٹ میں ڈال لیں اوراب ہر تھن کے علیحدہ علیحدہ دودھ میں سرف کا مذکورہ بالا پانی کی مقدار کے برابر دودھ شامل کردیا جائے، پھر اس آمیزے کو چند لمحوں کیلئے ہلائیں۔

انہوں نے کہاکہ جس جانور کا تھن مخفی سوزش کا شکار ہوگا سرف ملا پانی ملانے سے گاڑھا ہوجائیگا جبکہ دوسرے طریقہ کے مطابق سرف ملے پانی کے سیمپل کو زمین میں گرا دیں لہٰذاسرف ملا دودھ زمین میں جذب نہیں ہوگا جبکہ تندرست جانور کے تھن کا دودھ فوراً جذب ہوجائیگا۔انہوں نے بتایا کہ جس جانور کے تھن میں بیماری کی تشخیص کا پتہ چل جائے اس کا دودھ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہتا اور اس کا علاج کسی مستندویٹرنری ڈاکٹر یا ویٹرنری ہسپتال سے کروایا جائے۔انہوں نے بتایا کہ کسان اس ٹیسٹ کو زیادہ کارآمد اور استعمال کے لحاظ سے نہایت آسان ہونے کی وجہ سے بہترین مویشی پال و کسان دوست قرار دیتے ہیں۔