Live Updates

پاکستان میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا رجحان

DW ڈی ڈبلیو پیر 29 نومبر 2021 20:20

پاکستان میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا رجحان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 نومبر 2021ء) ان ویڈیوز میں کچھ لوگوں کو مقدس کتاب پر ووٹروں کے ہاتھ رکھوا کر ووٹ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اور بدلے میں دو، دو ہزار روپے لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دیگر ویڈیوز میں لوگ ووٹروں کو پیسے ملنے کی تصدیق کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 133

اس حلقے میں پانچ دسمبر کو قومی اسمبلی کے رکن کے لیے الیکشن ہونے جا رہا ہے۔

یہ نشست مسلم لیگ نون کے رہنما پرویز ملک کی وفات کے باعث خالی ہو گئی تھی۔ اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپیلز پارٹی کے مابین مقابلہ متوقع ہے۔ حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدوار کے کاغذات نامزدگی منسوخ ہونے کی وجہ سے اس الیکشن سے باہر ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

ملک ریاض کی برطانوی ویزہ کی اپیل بھی مسترد

سن 2023 کے الیکشن: ایک کروڑ سے زائد خواتین ووٹ دینے سے محروم

سیاست خدمت خلق یا طاقت اور دولت کا منافع بخش کاروبار؟

لاہور، دنیا کا سب سے آلودہ شہر

اس انتخابی حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک ووٹر میاں عبدالعزیز نے بتایا کہ بدقسمتی سے انتخابی عمل میں پیسے کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔

ان کے بقول آج کل انتخابات میں پیسہ نمبر ون پوزیشن پر ہے۔ برادریاں، نظریہ، انسانی تعلقات اور کردار سب پیچھے چلے گئے ہیں۔ میاں عبدالعزیز کے بقول حلقے میں مقابلہ سخت ہے لیکن ووٹروں کی حمایت کے حصول کے لیے پیسے کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

اسی حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک اور ووٹر شہزاد بھٹی ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ اس حلقے میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی اطلاعات سنی جا رہی ہیں۔

''میرا ایک جاننے والا پلمبر چار ہزار روپے لے کر آیا ہے جبکہ ایک تھیلا بردار شخص گھر میں کام کرنے والی خاتون کو دو ہزار روپے گھر پر دے کر گیا ہے۔‘‘

ان کے مطابق اس حلقے میں سے ایک ریلوے لائن گزرتی ہے جس کے دونوں طرف کچی آبادیاں ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قافلے اپنے اپنے شناختی کارڈز لے کر آتے ہیں اور خوش وخرم واپس جاتے ہیں۔

مہنگائی کے اس دور میں دس ووٹروں پر مبنی خاندان کو اگر بیس ہزار مل جائیں تو ان کے لیے بڑی بات ہے۔‘‘

بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو پیسوں کے عوض ایسے لوگوں کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں، جو اس حلقے سے تو چلے گئے ہیں لیکن ان کے ووٹ ابھی تک اسی حلقے میں ہیں۔ ''ایسے با اثر افراد جو اپنی اپنی برادری یا کمیونیٹی میں دس ہزار کے لگ بھگ ووٹروں کی حمایت رکھتے ہیں۔

وہ ریٹیل (پرچون) کے امور میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘‘ اس حلقے میں دوسرے صوبے سے آئے ہوئے مالدار شخص کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں۔

ماضی میں کئی انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے والے ممتاز تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت صرف ایک ضمنی انتخاب تک محدود نہیں ، مقامی حکومتوں کے انتخابات سمیت کئی قومی انتخابات میں ایسی خبریں ملتی رہی ہیں ۔

''اب تو سینٹ آف پاکستان کے انتخابات بھی اس برے کام سے مبرا نہیں رہے ہیں۔ جس ملک میں پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے بھی بعض لوگ پیسے دیتے ہوں ، اہم عہدے فنانسرز کو ملتے ہوں، بڑی کاروباری انجمنیں الیکشن مہم کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہوں وہاں غریب آدمی کیوں پیچھے رہے۔ جبکہ اس کو معلوم ہے کہ منتخب ممبر نے ووٹ لے کر پھر نظر نہیں آنا تو کیوں نہ ابھی جو ملتا ہے وہ تو لے لیا جائے۔

‘‘

ووٹوں کی خرید و فروخت جمہوریت کی روح کے منافی

پاکستان کے ممتاز ماہر سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت جمہوری سپرٹ کے منافی ہے، وہ ترقی پذیر ممالک جہاں غربت زیادہ ہے اور غریبوں اور امیروں میں تفاوت غیرمعمولی ہے وہاں ایسی شکایات زیادہ ملتی ہیں۔ ''ووٹوں کی خرید و فروخت سے شہریوں کا آزادانہ ووٹ دینے کا حق متاثر ہوتا ہے۔

‘‘ ان کے بقول پیسے دے کر پارلیمنٹ میں جانے والا شخص عموما غریبوں کے امور کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنے مفادات پر ہی زیادہ توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ ان کے بقول اس رجحان کی بیخ کنی کی ضرورت ہے اگر اس رجحان میں اضافہ ہوتا رہا تو پھر اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پیسوں سے ایوان میں نشستیں خریدی جا سکتی ہیں۔

ووٹوں کی خرید و فروخت کیسے روکی جا سکتی ہے؟

سلمان عابد کہتے ہیں کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کسی شخص کا انفرادی معاملہ نہیں اس میں ووٹر، امیدوار، سیاسی رہنما اور کبھی کبھی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کام کرنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا ۔ الیکشن کمیشن علامتی سی چند سزائیں سنا کر باقی معاملات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

''اگر آپ اس عمل کو روکنا چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ ان باتوں کا سخت نوٹس لیں۔ اس عمل میں شریک سیاسی رہنماوں امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ڈسکہ الیکشن کی رپورٹ پر کیا ایکشن لیا گیا ہم نہیں جانتے۔ اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں آگاہی مہم بھی چلائی جانی چاہیے اور الیکشن کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ ‘‘

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات