سعودی مالی امداد مگر سخت شرائط کے ساتھ، کئی حلقوں میں بحث

DW ڈی ڈبلیو پیر 29 نومبر 2021 21:00

سعودی مالی امداد مگر سخت شرائط کے ساتھ، کئی حلقوں میں بحث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 نومبر 2021ء) کئی ناقدین کے خیال میں یہ شرائط انتہائی کڑی ہیں اور ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں جو گرم جوشی کبھی پائی جاتی تھی، وہ ختم ہو رہی ہے۔

کڑی شرائط کیا ہیں؟

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پہلی دفعہ اس طرح کی کڑی شرائط پیش کی گئی ہیں ورنہ ماضی میں یہ بھی ہوا ہے کہ سعودی عرب نے کچھ قرضوں کو گرانٹ میں تبدیل کر دیا یا کچھ قرضے معاف بھی کیے۔

معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے جو شرائط پیش کی ہیں وہ خالصتاً کمرشل بنیادوں پر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "اگر پاکستان آئی ایم ایف کی رکنیت چھوڑتا ہے تو بھی ڈیفالٹ ہوگا۔

(جاری ہے)

اگر کسی پیمنٹ کی ادائیگی نہیں کر پاتا تو بھی ڈیفالٹ ہوگا۔ یہاں تک کہ شرح سود کی ادائیگی بھی اگر نہیں کر پاتا، تو وہ بھی ڈیفالٹ سمجھا جائے گا۔

اس کے علاوہ سعودی عرب کسی وقت بھی بہتر گھنٹے کا نوٹس دے کر پاکستان سے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔"

سعودی امداد، پاکستان کی علیل معیشت کے لیے اہم

پاکستان تین خلیجی ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی کوشش میں

سعودی عرب کی پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش

سعودی عرب مشکل میں: پاکستان میں کئی حلقوں کی طرف سے حمایت

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت سارے معاملات رازداری میں ہوتے ہیں اور ان کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ ان شرائط کو منظر عام پر لانے سے پاکستان میں سعودی عرب کا امیج متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جب سے یہ شرائط منظر عام پر آئی ہیں چاروں طرف ان شرائط پر بحث ہو رہی ہے اور بظاہر پاکستانیوں کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ اس طرح کی کڑی شرائط رکھی گئیں۔ جب پاکستان نے جوہری دھماکے کیے تو پوری دنیا سے پیسے آنے بند ہو گئے تھے۔

اس وقت بھی پاکستان ادائیگی پر ڈیفالٹ نہیں ہوا۔ تو ڈیفالٹ کی یہ بات اس معاہدے میں ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔"

ان کا مزید کہنا ہے کہ اسی طرح پاکستان کبھی آئی ایم ایف کی رکنیت نہیں چھوڑ سکتا۔ ہم اس کے رکن ہیں اور یہ رکنیت رکھنا چاہتے ہیں، تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان شرائط میں اس رکنیت کے حوالے سے شرط کیوں رکھی گئی۔

پاک سعودی باہمی تعلقات میں گرم جوشی کا خاتمہ

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے ہی بہت قریبی رہے ہیں۔

سعودی عرب نے ماضی میں نہ صرف پاکستان کی کئی مواقع پر مالی مدد کی بلکہ ادھار تیل کی فراہمی بھی کی ہے۔ پاکستان کی افرادی قوت کا ایک حصہ سعودی عرب میں کام کرتا رہا ہے۔ وہاں سے زر مبادلہ بھیجا جاتا ہے، جو ملک کی معیشت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور سعودی عرب بہت قریبی اتحادی رہے اور افغانستان جہاد میں ریاض اور اسلام آباد نے بڑھ چڑھ کر افغان مجاہدین کی مدد کی۔

تاہم یہ تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے تلخی کا شکار ہیں۔

دفاعی مبصر لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات میں جو گرم جوشی تھی، اب ختم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ماضی میں سعودی عرب سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کنگ عبداللہ کے دور تک بھی پاکستان کی کوئی مجبوری ہوتی تھی تو سعودی عرب اس کی مدد کرتا تھا لیکن محمد بن سلمان کا طریقہ حکومت بہت مختلف ہے اور وہ ہر معاملے کو کمرشل بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔

اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں جو برادرانہ گرم جوشی تھی وہ کس حد تک ختم ہو رہی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان کو یا تو ان شرائط کے بعد قرضہ لینے سے معذرت کر لینی چاہیے یا پھر سعودی عرب کا یہ قرضہ جلد از جلد واپس کر دینا چاہیے۔

صرف رسمی بات

تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ شرائط کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

وزیر اعلی پنجاب کے مشیر برائے مالیاتی امور سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ مالی معاہدوں میں اس طرح کی شرائط کوئی نئی نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عموماً لوگ مالی معاہدوں کی دفعات نہیں پڑھتے۔ اگر وہ غور سے پڑھیں تو تقریبا تمام مالی معاہدوں کی دفعات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کسی بینک سے قرضہ بھی لیں تو اس میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ بینک چوبیس گھنٹے کے اندر یہ قرضہ واپس طلب کر سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا یہ صرف رسمی باتیں ہیں جو مالی معاہدوں میں ہوتی ہیں۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایسی نوبت نہیں آنے دے گا۔