بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کو رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت

DW ڈی ڈبلیو بدھ 1 دسمبر 2021 19:00

بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کو رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 دسمبر 2021ء) بنگلہ دیشی حکام نے دو سال قبل درجنوں روہنگیا مہاجرین کو سیلاب کے خطرے سے دوچار بھاشن چار نامی جزیرے پر منتقل کیا گیا تھا، تب سے انہیں بنگلہ دیش میں ہی قائم دیگر مہاجر کیمپوں میں مقیم اپنے پناہ گزین رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔

میانمار میں سن دو ہزار سترہ کے خونزیز فوجی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بنگلہ دیش مہاجرت اختیار کرنے والے یہ روہنگیا مسلمان ڈھاکا حکومت سے مطالبے کر رہے تھے کہ انہیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت دی جائے۔

ایک اندازے کے مطابق کم از کم بیس ہزار روہنگیا مہاجرین کو بھاشن چار جزیرے پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے ان مہاجرین کو اس طرح کے مقامات پر منتقل کرنے پر شدید تحفظات رکھتی ہیں۔

(جاری ہے)

ڈھاکا حکومت کی کوشش ہے کہ بندرگاہی شہر کوکس بازار کے قریب واقع روہنگیا مہاجرین کے سب سے بڑے شیلٹر ہاؤس سے زیادہ سے زیادہ مہاجرین کو دوسرے مقامات پر منتقل کیا جائے۔

منصوبہ ہے کہ کم ازکم ایک لاکھ مہاجری کو اسی طرح مختلف مقامات پر منقل کیا جائے گا۔

بنگلہ دیشی حکام نے بتایا ہے کہ بھاشن چار کے مہاجر کیمپ کے اڑسٹھ مہاجرین کو سفر کی اجازت دی گئی ہے تاکہ بنگلہ دیش کے دیگر مہاجر کیمپوں میں سکونت پذیر اپنے رشتہ داروں سے یہ مل سکیں۔

بنگلہ دیشی بحریہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ایک خصوصی بحری جہاز کی مدد سے ان مہاجرین کو چٹاگانگ لے جایا گیا، جہاں سے دو مختلف بسوں کے ذریعے انہیں مہاجر کیمپوں میں پہنچایا جائے گا۔

یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے یہ بھاشن چار جزیرے پر منتقل کیے گئے روہنگیا مہاجرین کو وہاں سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے والے ملکی ادارے کے سینیئر اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ماہ اس طرح دو مرتبہ اس جزیرے پر سکونت پذیر روہنگیا مہاجرین کو ان کے رشتہ داروں سے ملانے کی خاطر اس طرح کے انتظامات کیے جائیں گے۔

بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر واقع متعدد مہاجر کیمپوں میں کم ازکم آٹھ لاکھ پچاس ہزار روہنگیا مہاجرین انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجرین سن دو ہزار سترہ میں میانمار میں شروع ہونے والے تشدد کی وجہ سے بنگلہ دیش پہنچے تھے۔

اقوام متحدہ نے میانمار میں ہوئے اس فوجی کریک ڈاؤن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اسے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی بھی کہا جا سکتا ہے۔

امریکا اور یورپی ممالک سمیت متعدد ممالک نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

جب یہ بحران شروع ہوا تھا تو جس طرح بنگلہ دیش نے روہنگیا مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں تو عالمی برادری نے ڈھاکا حکومت کی ستائش کی تھی۔ تاہم بعد ازاں ان مہاجرین کو مناسب مقامات پر آباد کرنے پر ناکامی کے بعد ڈھاکا حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ع ب، ک م (خبر رساں ادارے)