Live Updates

افغانستا ن کے مسئلے پر پاکستان کی میزبانی میں19دسمبر کو او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہو گی‘ شاہ محمو دقریشی

غیر معمولی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد افغانستان میں کسی طرح کا انسانی المیہ رونما ہونے سے قبل اسے روکنے کیلئے پیشرفت کرنا ہے

ہفتہ 4 دسمبر 2021 15:16

افغانستا ن کے مسئلے پر پاکستان کی میزبانی میں19دسمبر کو او آئی سی ممالک ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 دسمبر2021ء) وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی نے کہا ہے کہ افغانستا ن کے مسئلے پر 19دسمبر کو او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہو رہی ہے جس کا مقصد افغانستان میں کسی طرح کا انسانی المیہ رونما ہونے سے قبل اسے روکنے کیلئے پیشرفت کرنا ہے ،اگر کسی طرح کا انسانی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس سے صرف افغانستان متاثر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اثرات ہمسایہ ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے ،اوآئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے موقع پر پی فائیو ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر اہم ممالک ، اقوام متحدہ اورعالمی اداروں کو بھی مدعو کر رہے ہیں جس کا مقصد افغانستان کے مسائل کو سمجھنا او راس کے لئے وسائل کا انتظام کرنا ہے ، اس دوران افغانستان کا اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان آئے گا جو کانفرنس میں شرکت کرنے والوں سے براہ راست رابطے کر کے انہیں نہ صرف اپنے نقطہ نظر سے بلکہ مسائل او رمشکلات سے آگاہ کر سکے گا،اگر بھارت انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مدد کرنا چاہتا ہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بھارت بہانے بنانے کی بجائے افغانستان کی عوام کو فراہم کرنے کیلئے اعلان کردہ گندم بھجوائے ، سیالکوٹ واقعہ نہ صرف افسوسناک بلکہ باعث ندامت ہے ، وزیر اعظم عمران خان خود کو اس دیکھ رہے ہیں اور پنجاب حکومت سے اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی گئی ہے ، ہم سری لنکا کی حکومت سے رابطے میں ہیں ، سری لنکا نے پاکستان کے فوری رد عمل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے او رکہا ہے کہ وہ اس واقعہ کو کسی قوم یاملک کا فعل نہیں سمجھتے ،پاکستان نے جس طرح کے موثر اقدامات اٹھائے ہیں اس کے بعد اسے مزید ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں، امید ہے کہ پاکستان کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے اگلے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکسان 19دسمبر کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے غیر معمولی سیشن کا شرف حاصل کرنے جارہا ہے ، غیر معمولی سیشن کا فوکس افغانستان ہوگا او راس کا بنیای مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں ہماری جوتشویش رہی ہے او رآج بھی ہے اگر اس پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو وہاں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ،اگر افغانستان کوفوری امدادی نہ پہنچائی گئی اوران کے وسائل منجمد رہے تو ایک وہاں ایک معاشی بحران بھی جنم لے سکتا ہے او راس کے نہ صرف افغانستان کے لئے بڑے بھیانک اثرات نمودار ہوں گے اور یہ یقیناافغانستان کے ہمسایوں اور پورے خطے کے لئے بھی تشویشناک ہو سکتے ہیں۔

اس کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے یہ کاوش کی ہے او ر اس میں پیشرفت ہوئی ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے اجلاس کی اہمیت کے حوالے سے او آئی سی اور دیگر ممالک اور امداد فراہم کرنے والی ایجنسیز سے رابطے کر کے ان کی توجہ مبذول کرائی کہ بین الاقوامی جائزے کے مطابق افغانستان کی صورتحال اس نوعیت کی ہے کہ اگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی تقریباًنصف آباد ی جو22.8ملین ہے وہ خوراک کی قلت کا شکار ہو سکتی ہے ، تقریباً3.2ملین بچے غذائی قلت سے متاثر ہو سکتے ہیں او ریہی وہ نوعیت ہے جسے ہمیں او ردنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

او آئی سی کونسل آف وزرائے خارجہ کا 41سالوں کے بعد افغانستان کی صورتحال پر اجلاس منعقد ہو رہا ہے ، آخری اجلاس 1980ء میں ہوا تھااور 41سال بعد پاکستان اس کی میزبانی کا شرف حاصل کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ 18دسمبر کو سینئر آفیشلز پاکستان میں تشریف لا چکے ہوں گے او رآپس میں تبادلہ خیال ہوگا ،ہم توقع کر رہے ہیں او آئی سی سیکرٹریٹ کے آفیشلز14دسمبر اسلام آباد آ چکے ہیں اور جو تیاریوں کا جائزہ لیں گے۔

پاکستان نے پی فائیو ممالک کے سپیشل نمائندوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ہے جس میں امریکہ،چین ، روس ،فرانس اور برطانیہ شامل ہیں، ہم نے یورپی یونین کے خارجہ امور کے نائب صدر کو بھی مدعو کیاہے ، اقوام متحدہ کی ایجنسیز کو دعوت دی ہے جواس سارے معاملے میں معاون او رمدد گار ہو سکتی ہیں ،ہم نے ورلڈ بینک کے نمائندے اور دیگر کچھ اہم ممالک جو اسلاملک ورلڈ یا خطے میں نہیں آتے لیکن ان کی بڑی اہمیت ہے انہیں بھی دعوت دے رہے ہیں ،ان میںجرمنی، جاپان، کنیڈا،آسٹریلیا شامل ہیں اور ہم سمجھتے ہیں ان کی موجودگی سے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے میں آسانی ہو گی ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری یہ خواہش ہے او رکوشش کر رہے ہیں جب یہ نمائندہ اجلاس اور دیگر فورمز کا اجلاس ہو تو اعلیٰ سطحی افغان وفد بھی موجود ہو وہ خود ان مندوبین سے رابطے اور ملاقاتیں کریں اور اپنے ملک کی صورتحال کے بارے میں آگا ہ کریں او راپنے تحفظات پر تبادلہ خیال کریں ۔ وہ بنفس نفیس ان سے سوال و جواب کر سکیں اور ن کی راہ راست ملاقاتیں ہو سکیں وہ بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا آئیڈیا وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب میں سامنے آیا کہ بحیثیت امہ ہم افغانستان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب اوآئی سی سمٹ کو چیئر کر تا ہے ان کا آن بورڈ ہونا بہت ضروری تھا اور ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوںنے بڑی معاونت اور مدد کی ، میں سعودی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوںنے او آئی سی میں اتفاق رائے پید اکرنے میں ذاتی دلچسپی لی ۔

وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی نے کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر افغانستان میں کوئی بحران جنم لیتا ہے تو یہ تاریخی غلطی ہو گی اور ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے او رغلطی کو نہیں دہرانا چاہیے ۔ اگر بروقت توجہ نہیں دی گئی تو نیا بحران جنم لے سکتا ہے اور عدم استحکام آئے گا اور اس کے اثرات پوری دنیا میں نظر آئیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی اپنی حیثیت سے بڑھ کر 30لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے ، اگر دوبارہ اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہمارے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اس سے نمٹ سکیں ، ایران بھی اس حوالے سے فکر میں ،تاجکستان کے تحفظات ہیں بلکہ جتنے بھی ممالک کے افغانستان کے ساتھ سرحد لگتی ہے سب کو یہ تشویش ہے ۔

انہوں نے کہا کہ انشا اللہ 7دسمبر کو برسلز میں یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندوں سے اور یورپی پارلیمنٹ کے ممبران سے بھی اس صورتحال پر تبادلہ خیال ہوگا ،ان کو بھی صورتحال سے آگاہ کریں گے او رانہیںبھی اپنا کردر اد اکرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی کہتا چلوں 15اگست کے بعد جب انخلاء ہوا اور افغانستان میںعبوری سیٹ اپ آیا توبھارت نے بالخصوص پاکستان کے خلاف ایک مہم چلائی اور اس مہم کا ہیش ٹیگ یہ تھا کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے ، بھارت نے ساری ذمہ داری اورملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی لیکن اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان نے اپنی حکمت عملی اور کامیاب سفارتکاری سے ایسا نہیں ہونے دیا او ربھارت کو ان کے عزائم میں شکست ہوئی ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اطمینان کا باعث ہے کہ ہم اپنی سفارکاری کی وجہ ے عالمی برادری کو قائل کر چکے ہیں کہ مستحکم افغانستان ان کے سب کے مفاد میں ہیں ، ہم نے فوری رابطے بڑھائے ،کابل کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا او راب وہاں وفود جا چکے ہیں ،وزرائے خارجہ وہاںجا چکے ہیں ،دوحہ میںبھی ایک بیٹھک ہوئی ہے او ربات آگے چل پڑی ہے ۔ ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ اپنی ڈپلومیٹک آئوٹ ریچ کوبڑھائیں او راس کے لئے 15اگست کے بعد فوری طو پر چا رپڑوسی ممالک کا دورہ کیا ، چین کے ساتھ مسلسل رابطہ تھا او راس کے نتیجے میں ہم افغانستان کے چھ پڑوسیوں کا پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہوئے اور اس کا بنیادی مقصد جتنے ہمسائے ہیں ان کی آپس میںمشاورت مقصد تھا ، اس کا مقصد یہ بھی تھاکہ اگر حالات بہتر ہوتے ہیں ہمار ے لئے وہاں مواقع کیا ہیں، یہ کوارڈی نیشن کے لئے تھی اور اس میں بھی ہمیں کامیابی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ماسکو فارمیٹ میںوہاں نشستیں ہوئی ہیں،ماسکو میں پاکستان کے کردار کو سراہا گیا ہے ، ہماری کوشش ہے کہ یہ اجلاس غیر معمولی ہوگا اور ہماری کوشش ہے کہ اس سے دو چیزیں حاصل کریں ایک دنیا کی توجہ مبذول کرائیں کہ افغانستان کا انسانی المیہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ،پہلے افغانستان پھر اس کے ہمسائے او راس کے بعد آپ بھی متاثر ہو سکتے ہیں ،اس لئے بحران کے جنم لینے سے پہلے اس کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔

دوسر امقصد یہ ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے وسائل موبلائز کریں ،دیگر جو ممالک اور تنظیمیں آئیں وہ افغانستان کی کس طرح مدد کر سکتی ہیں ۔ اگر مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کے لئے وسائل درکار ہیں۔ پاکستان نے اپنی حیثیت کے مطابق افغانستان کی مدد کی ہے ہم نے خوراک ادویات بھیجی ہیں ،پچاس ہزا رٹن گندم بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے ۔بھارت گندم بھیجنا چاہتے ہیں ہم نے اس کے لئے راستہ دیا ہے لیکن خد اکرے وہ کر جائیں ، بھارت کہنے کے باوجود کوئی نہ کوئی بہانے تلاش کررہا ہے ، ہم نے کوشش کی ہے کوئی موقع فراہم نہ کریں جس سے بھار ت کو کسی طرح کا منفی تاثر دینے میں مدد ملے ،اگر بھارت انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو اپنے افغانستان بھائیوں کے لئے راستہ دینے میں عار نہیں ۔

آپ بہانہ نہ بنائیںجلد از جلد گندم دینی ہے وہ ضرور دیں تاکہ افغانستان کے عوام کی غذائی ضروریات پوری ہو سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ متفقہ او رکوارڈی نیٹو اپروچ ہو، دنیا کی کوشش تھی بلکہ کچھ ہمارے پڑوسیوں کی کوشش تھی جس کا اشارہ آپ سمجھتے ہیں کہ سارے بحران کا ذمہ پاکستان کو ٹھہرائیںلیکن ہماری کوشش تھی کہ دنیا کے سامنے صحیح بیانیہ رکھیںاو ردنیا کو انگیج کریں اوراس پیشرفت پر بھی کامیابی ملی ہے ۔

وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی نے کہا کہ سیالکوٹ پر کوئی شک نہیں کہ یہ افسوسناک ہے ، باعث ندامت ہے ، ہر ذی شعور انسان جس میں ذرا بھر انسانیت ہے اس واقعہ سے غافل نہیں رہ سکتا ۔ہم نے نہ صرف اس کی مذمت کی ہے بلکہ اس کا نوٹس لیا ہے ۔ وزیر اعظم خود اس کو دیکھ رہے ہیں،آئی ایس پی آر او رآرمی چیف کا نقطہ نظر او ربیان سامنے آئے ہیں،وزیر اعظم نے اڑتالیس گھنٹے کی مہلت دی ہے ، میں توقع کرتا ہوں ہم بروقت کسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس واقعہ کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے ۔

ہمارا سری لنکا کے ساتھ رابطہ ہے ، فارن سیکرٹری نے لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہ رکھ رہے ہیں،سری لنکا نے پاکستان کے موقف اور فور رد عمل کو سراہا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ اس واقعہ پر پورے طبقے یا ملک پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ، وہ توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان ذمہ داروں کو کیفر کردر تک پہنچائے گا ۔انہوںنے کہا کہ میراسری لنکا کے وزیر خارجہ سے رابطہ ہو اہے وہ سفر کر رہے ہیں ان کی سہولت کے مطابق بات ہو جائے گی اور میں انہیں تازہ ترین صورتحال پراعتماد میں لوں گا۔

انہوںنے کہا کہ ہمارے سر ی لنکا کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ اس واقعہ سے کسی قوم یا ملک کا تعلق نہیں ہے۔ ہم نے متاثرہ فیملی سے رابطہ کیا ہے اور ان کی فیملی کے نقطہ نظر سے آگاہی حاصل کر رہے ہیںاو رہماری خواہش ہے کہ کوشش ہو گی کہ جو ان کی خواہشات ہیں اس کے مطابق آگے بڑھیں ، ان کی جو تسلی ہو گی ویسا ہی کریں گے۔ انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی نہ صر ف اس پر بلکہ دیگر اہم قانون سازی پر پر سیاسی جماعتیں کواعتماد میں لیا جائے او راس پر اتفاق رائے کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں مقصد کو بھول جایا جاتا ہے اور سیاست غالب آ جاتی ہے ۔ہماری کوشش ہو گی کہ ای وی ایم اور دیگر قانون سازی پر اپوزیشن سے رابطے ہوںاور ہم ان معاملات پر آگے بڑھنا چاہیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہم پاکستان آنے والے مندوبین کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے بلکہ ان سے گزارش کر سکتے ہیں کہ افغانستان کیلئے جو مناسب ہو اور فوری ضرورت ہے وہ پوری ہو سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے ایشو پر ہم نے ہر فورم پر دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے، سلامتی کونسل میں ایک عرصہ دراز کے بعد تین مرتبہ یہ بحث ہوئی ہے، بھارت کا موقف رہا ہے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور اس نے اپنے آئین کی شقوں میں ترمیم کی ہے اور خود مختاری کے اسٹیٹس کو دفن کیا ہے لیکن پاکستان کا موقف تھا کہ یہ بھارت کا ہرگز اندرونی معاملہ نہیں یہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اورہم اس پر بات کرنے میں حق بجانب ہیں ،ہمار اموقف درست پایا اور بھار ت کے موقف کی نفی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر پاکستان او رچین مل کر مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے ہم مل کر ملک کو نکالنا ہوگا، پاکستان نے جو اقدامات اور پیشرفت کی ہے اس کے بعد اسے مزید گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ، توقع ہے کہ پاکستان کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے اگلے اجلاس میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات