گ* صوبائی حکومت لاچار و پولیس لولی لنگڑی و لیویز بے دست وپا ہے، امان اللہ کنرانی

/ گوادر سمیت مکران اب نئی اصطلاح جنوبی بلوچستان کے نام پر مکمل ایف سی و کوسٹ گارڈ اور چائنیز ٹرالرز کے نرغے دے کر عوام کو محصور بنادیا گیا ہے ،بیان

اتوار 5 دسمبر 2021 18:30

۴کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 دسمبر2021ء) سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر و سینٹر امان اللہ کنرانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گوادر ڈیپ سی پورٹ کو ترقی دینے کی بات پارلیمنٹ میں بی این پی نے 1997میں اٹھایا اور اس کا افتتاح بھی نواز شریف کے ہاتھوں ہوا مگر اس کے مضر اثرات و گوادر کے مستقبل کو لاحق خطرات پر بھی بی این پی نے سینٹر حبیب جالب شہید کی سربراہی میں ایک وسیع البنیاد کمیٹی بھی قائم کی جس کے اجلاسوں میں جے ڈبلیو پی کی نمائندگی کا بارہا موقع ملا نواب خیر بخش مری مرحوم بھی ان اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت فرماتے تھے اسی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ واضح و ٹھوس مطالبات رکھے گئے جس میں بلوچ کے ساحل و وسائل پر دسترس اور بلوچ کے قومی شناخت کو برقرار و تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا،گوادر میں زمین کی مالکان حقوق و ووٹ دینے کے حق کو کچھ سالوں کے لئے معطل کرنے،گوادر کے جغرافیائی حدود کو تبدیل نہ کرنے اور DemographicallyChangeکے ذریعے اس کے شناخت کو تبدیل نہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا مگر آج حالت یہ ہے کہ وہاں صوبائی حکومت لاچار و پولیس لولی لنگڑی و لیویز بے دست وپا ہے جبکہ گوادر سمیت مکران اب نئی اصطلاح جنوبی بلوچستان کے نام پر مکمل طورپر ایف سی و کوسٹ گارڈ اور چائنیز ٹرالرز کے نرغے دے کر گوادر کے عوام کو محصور وRedIndianبنادیا گیا ہے اس لئے مولانا کی جدوجہد دراصل اسی چنگاری کا ایک لاوا ہے اگر اس کی تدارک کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ وہی غلطی ہوگی جو 1970میں شیخ مجیب الرحمن کے 6پوائنٹ میں سے 5.5پوائنٹ تسلیم کئے گئے مگر آدھا پوائنٹ نہ مان کر مجیب کو بھائی سے باغی و مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنادگیا ہماری فوج وہاں ایسی پھسی کہ اس کو ہتھیار ڈالنے پڑے آج گوادر کے تین طرف سمندر ایک طرف خشکی ہے اور اگر گوادر کے دھرنے والے کچھ نہ کریں ان کی عورتیں و بچے اپنی جان و مال عزت و عصمت و عافیت کے دفاع میں نعرہ تکبیر بلند کرکے غلیل و خالی شیشے کے بوتلوں کا استعمال کریں تب پولیس تو کیا کسی فورس کو گوادر سے نکلنے کا راستہ تو کیا سمندر میں ماہی گیروں کے غوطوں سے کوئی نہیں بچا سکے گا مگر ہمیں یقین ہے بلوچستان کی پولیس لاہور کے غیور فوجیوں سے کم غیرت مند نہیں جنھوں نے 9اپریل 1977کو لاہور کے مال روڈ پر تاجروں و اپنے عوام پر گولی چلانے سے انکار کرکے بنگالی سپاہیوں کی طرح اپنی بندوقیں عوام کے حوالے کردیں جس کے نتائج بھٹو حکومت کے خاتمے پر ہوا�

(جاری ہے)