جمہوریت کے سوال پر امریکی سربراہی اجلاس، ثمر بخش ہو گا؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 9 دسمبر 2021 19:00

جمہوریت کے سوال پر امریکی سربراہی اجلاس، ثمر بخش ہو گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 دسمبر 2021ء) سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے بعد جس میں سازشی نظریات کو فروغ دیا گیا،آمرانہ طرز حکمرانی کی حوصلہ افزائی کی گئی، اب صدر جو بائیڈن جمہوریت کو فروغ دینے کے اپنے عزم پر کام کر رہے ہیں اور اس کے تحفظ کے لیے ایک سربراہی اجلاس کا انعقاد کر رہے ہیں۔

اس دو روزہ ورچوئل اجلاس کا آغاز آج نو دسمبر کو ہو رہا ہے۔

امید ہے کہ امریکا اس سربراہی اجلاس میں جمہوریت کے ایک بڑے علمبردار کے طور پر اپنے کردار کو ایک بار پھر اجاگر کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ بھی اپنے ایک بیان میں اس بات کا عندیہ دے چکا ہے کہ وہ ''امریکا کے اندر جمہوریت کو درپیش چیلنجز کے بارے میں سننے، سیکھنے اور اظہار رائے کے ذریعے‘‘ اپنے نئے کردار کو نبھانے پر آمادہ ہے۔

(جاری ہے)

امریکا میں جمہوریت کو درپیش خطرات کے حوالے سے صدر بائیڈن کی انتظامہ کو ابھی بہت سے مشکل حالات کا سامنا کرنا ہو گا۔

رواں برس جنوری میں کیپٹل ہِل میں پیش آنے والے واقعات، ری پبلکن جماعت کی طرف سے بذریعہ ڈاک ووٹنگ کا راستہ روک کر ووٹر ٹرن آؤٹ کو کم رکھنے کی کوشش یا پھر این پی آر کی طرف سے کرائے گئے ایک تازہ سروے میں یہ حقیقت سامنے آنا کہ ری پبلکن جماعت کے محض ایک تہائی ارکان یہ سمجھتے ہیں الیکشن شفاف ہوئے ہیں، امریکی جمہوریت کے ڈانوا ڈول ہونے کی علامات ہیں۔

امریکا میں داخلی طور پر اور بین الاقوامی سطح پر جمہوری اقدار کی ڈگمگاتی صورتحال کے تناظر میں بہت سے سوالات ہیں کہ اس سربراہی اجلاس سے کیا کچھ توقعات لگائی جا سکتی ہیں۔

نتائج کے لیے بہترین توقع کیا ہو سکتی ہے؟

اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ اس طرح کے سربراہی اجلاس کا مقصد اصل میں مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان مسائل کا تعین ہوتا ہے۔

امریکا کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے جیو پالیٹیکس اور جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ایرک ووئٹن کے مطابق، ''اس بات کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں کہ کوئی ٹھوس یا اہم اقدامات سامنے آئیں گے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے ایونٹ دراصل امریکا کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات واضح کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور انہی میں سے ایک جمہوریت کو فروغ دینا بھی ہے۔

جیمز لیمنڈ، سینٹر فار یورپیئن پالیسی اینالیسز (CEPA) میں 'ڈیموکریٹک ریزیلیئنس پروگرام‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سربراہی اجلاس کی نتیجہ خیزی کو جانچنے کے لیے وہ دو سوال کریں گے: کیا ممالک اور شرکاء ذمہ داریوں کے تعین پر متفق ہوں گے؟ اور کیا یہ ذمہ داریاں واقعی با مقصد ہیں؟

ایک بین الاقوامی مسئلہ

اکانومسٹ کے انٹیلیجنس یونٹ کے مرتب کردہ ڈیموکریسی انڈیکس کے مطابق سال 2020ء کے دوران قریب 70 فیصد ممالک میں جمہوریت کے حوالے سے اسکور میں بحیثیت مجموعی زوال دیکھا گیا ہے۔

اس انڈیکس کا آغاز 2006ء میں ہوا تھا اور یہ اس وقت کے بعد سے کسی بھی سال کا کم ترین اسکور ہے۔

دو روزہ سربراہی اجلاس میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران جموریت کو پہنچنے والے نقصانات کا تعین کیا جائے گا۔ اس میں 110 ممالک شریک ہوں گے اور متعدد پرائیویٹ ادارے اور این جی او بھی۔ لیکن جو بات قابل توجہ ہے وہ ہے بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے جن ممالک کو شرکت کی دعوت نہیں دی۔

اور یہ ممالک ہیں روس، چین اور ہنگری۔ لیکن دوسری طرف فلپائن اور کانگو ہیں جو ڈیموکریسی انڈیکس میں ہنگری سے بھی نیچے ہیں مگر انہیں اس سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

سربراہی اجلاس کی اہم حکمت عملی

جمہوریت کے ایک معیار کے طور پر امریکا کا وقار کافی متاثر ہوا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار میں امریکی پالیسی میں جمہوری اقدار پس پشت رہے۔

چین اور روس نے اس سمٹ میں مدعو نہ کرنے پر ردعمل میں اسے منفاقت قرار دیا ہے۔

ووئٹن کہتے ہیں کہ چین اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے، بائیڈن انتظامیہ نے اس سربراہی اجلاس کو طاقت کے ایک بڑے کھیل کے طور پر ترتیب دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپ اور امریکا طاقت کے حصول کی ان کوششوں کے حوالے سے کتنی عدم مطابقت رکھتے ہیں۔

امریکی میزبانی میں ہونے والا یہ سربراہی اجلاس دراصل ٹرمپ دور کے بعد امریکا کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے کہ وہ ایک فعال جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی غلطیوں پر بھی بات کرنے کو تیار ہے۔ اس کے علاوہ یہ اشارہ بھی ہے کہ امریکا اب اپنے آپ کو عالمی منظر نامے پر بدعنوانی اور آمریت پسندی کے مخالف اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے حامی کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔

جان مارشل، واشنگٹن (اب ا/ع ا)