Live Updates

ایک شہر پورے ملک کو چلاتا ہے، وزیر اعظم

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 10 دسمبر 2021 21:00

ایک شہر پورے ملک کو چلاتا ہے، وزیر اعظم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 دسمبر 2021ء) وزیراعظم عمران خان نے آج کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کا افتتاح کردیا۔ کراچی میں نمائش چورنگی کے قریب ہونیوالی افتتاحی تقریب میں وفاقی وزراء، گورنرسندھ عمران اسمعیلٰ سمیت پی ٹی آئی کےایم این ایز بھی شریک ہوئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کوئی بھی جدید شہرجدید ٹرانسپورٹ کے بغیرنہیں چل سکتا ہے۔

ہر ملک میں ایک شہر پورے ملک کو چلاتا ہے ماضی میں کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر توجہ نہیں دی گئی، وزیراعظم کا کہنا تھا،'' 50 سالوں میں کراچی کو کھنڈر بنتے دیکھا۔ مینیجمنٹ سسٹم بہتر کیے بغیر کراچی بہترنہیں ہوسکتا۔ عمران خان نے کہا کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان میں کیے گئے وعدے پورے ہورہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کے فوری منصوبے کی میں خود نگرانی کررہاہوں سندھ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ہیلتھ کارڈ دیں شہر جتنا پھیلے گا سنبھالنا اتنا ہی مشکل ہوگا، جدید شہر کی تعمیر میں ٹرانسپورٹ کا اہم کردارہوتا ہے۔

‘‘

گرین لائن بس سروس کے افتتاح کے موقع پر کراچی کے شہریوں میں بھی خوشی پائی جاتی تھی لیکن اکثریت کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی کے دلدل سے نکالے تو اس سے بڑا کوئی احسان نہ ہوگا۔ جدید طرز تعمیر کا شاہکار کہلانے والی گرین لائن بس سروس کراچی والوں کواب جلد ہی میسر ہوگی لیکن قابل غور بات یہ ہےکہ 4 سال گیارہ ماہ سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی یہ منصوبہ نامکمل ہے اس میں بیشترجگہ خامیاں اور تکنیکی خرابیاں بھی تاحال موجود ہیں، اس منصوبے کا اعلان سن 2014 میں کیا گیا جبکہ اس کا سنگ بنیاد 2016 ء میں رکھا گیا سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں شروع ہونیوالے اس منصوبے پر ابتداء میں تو 16 ارب روپے کی لاگت آنا تھی لیکن بعد میں اسے گرومندر سے ٹاور تک کرنے اورتاخیر کے باعث اس منصوبے پر اب 25 ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہوگی اس منصوبےکو 2017 ء میں مکمل ہونا تھا لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔

اس میں متعدد جگہوں پر اب بھی کام باقی ہےسرجانی سے نمائش تک کئی جگہوں پرترقیاتی کام سست روی کا شکار ہے تو کہیں بس اسٹیشن بننے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

سیاسی عدم استحکام کا شکار گرین لائن بس سروس

سرجانی، ایم اے جناح روڈ اور درمیان میں آنیوالے راستوں میں سے بیشتر جگہوں پر اب بھی ترقیاتی کام باقی نظر آتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اس دوران کئی بار منصوبے کو جلد مکمل کرنے کے دعوے کیے۔

متعدد دعوؤں کے باوجود یہ منصوبہ اب بھی اپنے مقررہ وقت پر فعال ہوتا ہوا نظر نہیں آتا جبکہ سیاسی چپقلش کے باعث ہونیوالی تاخیر نے شہریوں کو دشواری میں مبتلاء کررکھا ہےحکومتی وزراء کے مطابق گرین لائن منصوبہ 26 کلومیٹر طویل اور 22 بس اسٹیشنوں پر مشتمل ہوگا ۔ پہلے فیز میں سرجانی سے نمائش تک سفر ممکن ہوسکے گا ہربس میں 200 سے 250 افراد کے سفر کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

پہلے فیز کی بحالی کے لیے 80 بسیں مختص ہوں گی۔ بس میں ایک لاکھ 35 ہزارمسافرسفرکرسکیں گے۔

سابق گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان نے ڈوئچے ویلےسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف کراچی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا منصوبہ ہے اسے بہت پہلے ہی مکمل ہوجانا چاہیے تھا انہوں نے کہا کہ جولائی 2014 ء میں یہ منصوبہ جب شروع کیا گیا تو میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور کراچی آپریشن اپنے زور پر تھا منصوبے کو سیاسی چپقلش سے بچانے کےلیے ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔

اگر سیاسی ترقی کے خواہشمند ہوں تو کام آسان ہوجاتے ہیں۔ نظریات چاہے مختلف ہیں لیکن ملک اور شہر کی ترقی کے لیے کوئی اختلاف نہ ہونا چاہیے۔ آگے بڑھنے کے لیے ورکنگ ریلیشن شپ کا انتظامی سطح پر ہونا ضروری ہے ساتھ ہی ایک کمانڈ کے نیچے تمام امور سرانجام دیے جائیں تو بہتر ہے۔ ڈاکٹرعشرت العباد نے کہا کہ یہ ایک اچھی مثال ہے کہ گذشتہ حکومت کا شروع کیا گیا منصوبہ آگے بڑھایا گیا عموماً ایسا نہیں ہوتا تھا ۔

کراچی کے لیے گرین لائن بس سروس ، منصوبے کی بنیاد رکھ دی گئی

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء خرم شیرزمان نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' کراچی نے ہمیشہ بے بسی دیکھی ہے 13 سال سے اقتدار میں رہنے والی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت 13 بسیں نہیں چلاسکی۔‘‘ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسٹیک ہولڈرز، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی افتتاح میں مدعو کیا جاتا تو وفاق کی طرف سے ایک اچھا پیغام جاتا، ان کا کہنا تھا،'' ہم نہیں سمجھتے کہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں جن پر ہم یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

‘‘

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمنٰ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نامکمل منصوبے کا جعلی افتتاح جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ان کا کہناگ تھا،'' کراچی اس وقت بلدیاتی مسائل کے دلدل میں ہے۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی معاملات پر جوسلوک کراچی کے ساتھ تازہ ترین بل کی صورت میں کیا ہے اسکے خلاف لگائے گئے احتجاجی بینرزکو ہٹا کر پی ٹی آئی کے پرچم لگا دیے گئے ہیں، حافظ نعیم نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کو بعد میں کون چلائے گا۔

ہمیں خدشہ ہے کہ یہ بھی کسی نجی ادارے کو ٹھیکے پر دے دیا جائیگا۔ اگر وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کراچی سے ہمدردانہ آنرشپ رکھتی تو آج یہ جعلی افتتاح نہ کیا جاتا۔‘‘

سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے کہا کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان بنانے کا مقصد یہ تھا کہ فوج کے نمائندوں کو اس پلان میں شامل کیا جائے تاکہ وہ ترقیاتی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو ختم کرنے اور کہیں اختلافات کی صورت میں برج کا کردار ادا کریں لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ وزیراعظم کسی سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔

اگر تمام جماعتیں مل کر آج یہ کام کرتیں تو ایک اچھا پیغام سامنے آتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ ہر سطح پر وفاق سے بات چیت کو تیار ہیں مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی کھچاؤ کی یہ کیفیت براہ راست ترقیاتی کاموں پر اثر انداز ہوگی اور مستقبل میں اسکے سیاسی اور سماجی نقصانات بھی ہوں گے۔

رفعت سعید/ کراچی

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات