اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی ایرانی جنرل کے قتل میں کردار کی تصدیق

بدھ 22 دسمبر 2021 00:30

تل ابیب(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 دسمبر2021ء) اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ نے جنوری 2020 میں امریکی کارروائی میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت میں ملک کا کردار کی تصدیق کردی ہے۔ غیرملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی کارروائی میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے بارے میں یہ پہلا سرعام اعتراف ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو جنوری 2020 میں بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں قتل کیا گیا تھا، جس سے ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔جنرل سلیمانی پر الزام تھا کہ وہ ایرانی فورس کو ملک سے باہر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔این بی سی نیوز نے امریکی کارروائی کے ایک ہفتے بعد رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیلی کی انٹیلی جنس نے جنرل سلیمانی کی دمشق اور بغداد جانیوالی پرواز کی تصدیق میں مدد کی تھی۔

(جاری ہے)

رواں برس کے آغاز میں یاہو نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیل کا جنرل سلیمانی کے نمبرز تک رسائی تھی اور امریکا کو خفیہ اطلاع فراہم کی۔اب اس وقت کے اسرائیلی ملیٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل تیمر ہیمن نے ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی دفعہ اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔ تیمر ہیمن کا بیان نومبر میں عبرانی زبان کے میگزین میں شائع ہوا تھا جو اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز سیمنسلک ہے اور یہ انٹرویو ستمبر کے آخر میں ان کی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل ہوا تھا۔

رپورٹ کے مطاقب ہیمن نے انٹرویو کا آغاز جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے لیے امریکی فضائی کارروائی سیکیا، جس میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے اہم کردار ادا کیا۔ہیمن نے میگزین کو بتایا تھا کہ جنرل سلیمانی کا قتل ایک کامیابی تھی، جیسا کہ میری نظر میں ہمارا مرکزی دشمن ایران ہے اور فوجی انٹیلی جنس سربراہ کی حیثیت سے میرے دور میں دو اہم قتل ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ‘پہلا میں بتا چکا ہوں، وہ قاسم سلیمانی تھا، کسی سینئر کا سراغ لگانا غیرمعمولی تھا، جو فائٹنگ فورس کا تخلیق کار تھا اور یہ غیرمعمولی حکمت عملی بنانے والا اور منتظم تھا’۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی پڑوسی ملک شام میں ایرانی اثررسوخ کی ریل کا انجن تھا۔ اسرائیلی گزشتہ ایک دہائی کے دوران شام میں سیکڑوں کارروائیاں کرچکا ہے لیکن کم تر واقعات ایسے ہیں جس کا کھلم کھلا اعتراف کیا گیا ہے، اسرائیل کہ چکا ہے کہ اس نے ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے ٹھکانوں اور ایرانی پراکسی کے لیے جمع اسلحہ تباہ کرنے کے لیے اس کو نشاژہ بنایا ہے۔

ہیمن نے کہا کہ اسرائیلی حملے ایران کو شام میں اپنے قدم جمانے سے روکنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اسرائیلی فوج نے انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ہیمن کے اعترافات پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں شائع ہوا ہے جب ایران اور عالمی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے نئے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔

ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کا 2015 میں طے پانے والا معاہدہ 2018 میں امریکا کی دستبرداری کے بعد خطرے میں پڑ گیا تھا جبکہ امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ترجمان امریکا کی قومی سلامتی کونسل ایملی ہورن کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان اور اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کے درمیان رواں ہفتے مقبوضہ بیت المقدس میں ملاقات شیڈول ہے جہاں امریکا اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کے حامل اسٹریٹجک امور سمیت ایران کے خطرات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اسرائیل خطے میں ایران کو اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتا ہے اور کہتا آیا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا جبکہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔