فلسطینی صدر محمود عباس کا دورہ اسرائیل اور اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں

DW ڈی ڈبلیو بدھ 29 دسمبر 2021 12:00

فلسطینی صدر محمود عباس کا دورہ اسرائیل اور اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 دسمبر 2021ء) فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے 28 دسمبر منگل کے روز اسرائیل کا غیر معمولی دورہ کیا اور اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز سے ملاقات کی۔ اعلیٰ اسرائیلی حکام اور فلسطینی رہنما کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے سلسلے میں یہ تازہ ترین ملاقات تھی۔

اگست کے اواخر میں، اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے محمود عباس کے ساتھ بات چیت کے لیے مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تھا۔

فریقین کے مابین گزشتہ کئی برسوں کے دوران اس سطح پر یہ بھی پہلی سرکاری ملاقات تھی۔

فلسطین کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق سن 2010 کے بعد پہلی بار اسرائیل میں منگل کے روز محمود عباس کی کسی اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار سے ملاقات ہوئی۔

(جاری ہے)

سینیئر فلسطینی اہلکار کے مطابق مرکزی اسرائیل میں دیر رات ہونے والی بات چیت وزیر دفاع بینی گانٹز کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی۔

گفتگو کن امور پر ہوئی؟

ملاقات کے بعد اسرائیلی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’دونوں افراد نے سکیورٹی اور سول معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا کہ گانٹز نے محمود عباس کو بتایا، ’’جیسے کہ ان کی پچھلی ملاقات میں اتفاق کیا گیا تھا، وہ ایسے اقدامات جاری رکھنے اور انہیں فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سے معاشی اور شہری شعبوں میں اعتماد مضبوط ہو۔

‘‘

فلسطین میں سول امور کے وزیر اور محمود عباس کے کلیدی معاون حسین الشیخ نے کہا کہ اس میٹنگ میں، ’’ایسا سیاسی ماحول بنانے کی اہمیت پر زور دیا گیا‘‘ جو بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے مطابق ایک سیاسی حل کی طرف لے جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے، ’’آباد کاروں کے طرز عمل کی وجہ سے میدانوں کے کشیدہ حالات‘‘ پر تبادلہ خیال کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میٹنگ کے دوران، ’’بہت سے سکیورٹی، اقتصادی اور انسانی مسائل سے نمٹنے کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔‘‘

’امن کا عمل جاری نہیں ہے‘

اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے اگست میں ہونے والی ملاقات کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی طرح کے امن مذاکرات نہ تو جاری ہیں اور، ’’نہ ہی ہوں گے۔

‘‘ دائیں بازو کے نیفتالی بینٹ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تنازعات کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں حالات زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے تعلقات کافی خراب ہوئے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں مغربی کنارے میں تشدد کے بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

اس میں جہاں اسرائیلیوں پر فلسطینی حملے شامل ہیں وہیں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔

فریقین کے درمیان امن مذاکرات سن 2014 میں ہی معطل ہو گئے تھے جس کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں میں توسیع کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی اتھارٹی ایک ایسی آزاد ریاست کی خواہاں ہے جس میں مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی جیسے علاقے شامل ہوں۔

ص ز/ ع آ (اے ایف پی، اے پی)