منی بجٹ ایوا ن میں پیش، اپوزیشن کا شدید احتجاج ، شورشرابہ کے باعث ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کر نے لگا

اپوزیشن اراکین نے پلے کارڈ لہرائے اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں ، اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے بازی ، شگفتہ جمانی اور غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی ایوان ’مہنگائی کا سونامی نا منظور اور حکو مت مخالفت نعروں سے گونج اٹھا ،حکومتی ارکان کی جانب سے جوابی نعرے لگائے گئے الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس ،سرکاری جائیدادوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے سمیت متعدد آر ڈیننس میں 120روز توسیع کی قراردادیں منظور

جمعرات 30 دسمبر 2021 21:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 دسمبر2021ء) وفاقی کابینہ کی منظور ی کے بعد حکومت کی جانب سے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے موقع پر اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شورشرابہ کے باعث ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کر نے لگا ،اپوزیشن اراکین پلے کارڈ لہرائے اور بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے بازی کرتے رہے ، شگفتہ جمانی اور حکومتی رکن غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی بھی ہوئی ، ایوان ’مہنگائی کا سونامی نا منظور اور حکو مت مخالفت نعروں سے گونج اٹھا ،حکومتی ارکان کی جانب سے جوابی نعرے لگائے گئے ۔

جمعرات کو اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو مشیر پارلیمانی امور نے قومی اسمبلی کا معمول کا اجلاس معطل کرنے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دیدی ۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دور ان جیسے ہی وزیرخزانہ شوکت ترین نے ضمنی مالیاتی بل 2021 ایوان میں منظوری کیلئے پیش کیا تو اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج اور نعرے بازی کی گئی۔

پوزیشن اراکین نے احتجاجاً بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا تاہم اسی شور شرابے میں وزیر خزانہ نے فنانس سپلیمنٹری بل 2021ء سے پہلے ضمنی ایجنڈے کے تحت اسٹیٹ بینک کے حوالے سے بل پڑھ دیا۔ اسپیکر ڈائس کے سامنے شگفتہ جمانی اور حکومتی رکن غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی بھی ہوئی اس موقع پر ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کر نے لگا ۔

اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن نوید قمر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایجنڈے میں مدت ختم ہونے کے بعد آرڈیننس لائے جارہے ہیں، اس ایوان میں نئی روایات ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی میں مدت سے پہلے آرڈیننس پیش ہوتے ہیں، اس حوالے سے رولز کے مطابق کارروائی چلائی جارہی ہے۔اس دور ان حکومت کی جانب سے الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120دن کی توسیع،سرکاری جائیدادوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ترمیمی آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کی قرارداد منظورکرلی گئی ۔

اجلاس میں کونسل برائے تحقیق آبی وسائل ترمیمی آرڈیننس میں 120روز توسیع کی قرارداد ، پاکستان فوڈ سیکورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس میں 120روز توسیع ، ٹیکس قوانین تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120روز توسیع کی قرارد منظور کرلی گئی ، اجلاس میں برقی توانائی کی پیداوار اور تقسیم سے متعلق آرڈیننس میں توسیع کی قرارداد کرلی گئی ،ایوان میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق اسٹیٹ بینک ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

اپوزیشن ارکان نے برقی توانائی پیداوار کے حوالے سے آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی تحریک پر ووٹنگ کو بھی چیلنج کردیاجس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے زبانی ووٹنگ کے بجائے باقاعدہ ووٹنگ کا حکم دیا، اسپیکر نے قرارداد کے حق ووٹ دینے والوں کو نشستوں پر کھڑے ہونے کا حکم دیا تاہم اس پر قرارداد کے حق میں ووٹنگ کے بعد مخالفت کرنے والوں کی ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے، اپوزیشن ارکان کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہیں ہوئی ،حکومت کی جانب بل کے حق میں 145 ووٹ دیئے گئے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے اپوزیشن اور پاکستان کے عوام کی زبان بندی کرکے پاکستان کی معاشی خودمختاری بیچ رہے ہیں۔اسپیکر کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ یہ دن اس پارلیمنٹ اور آپ کی کرسی کے لیے ہماری تاریخ میں اس دن کی حیثیت سے جائے گا جس پر قوم شرمسار ہوگی کہ پارلیمنٹ کس طرح کا کام کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ وہ آرڈیننس بحال کر رہے ہیں جو ختم ہوچکے تھے جو آئین کے خلاف ہے، اسٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دے رہے ہیں، آپ 1200 یا 100 ارب ارب ٹیکس واپس لے کر استثنیٰ دے کر عوام کے اوپر مہنگائی کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ خدا کیلئے پاکستان کے عوام پر رحم کریں، پاکستان کو نہ بیچیں، آپ نے تین سال یہاں لوٹ مار کی اجازت دی، دوائیوں، گندم اور چینی چوری کرنے کے اجازت نہ دیتے تو یہ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نیا بجٹ بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی خود مختاری کو ختم نہ کریں، جو ملک معاشی طور پر غلام ہوجاتا ہے، وہ کالونی بن جاتا ہے وہ سرحدی قبضے سے زیادہ ظلم ہے، آپ ہمیں معاشی طور پر غلام کر رہے ہیں، کیا یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرڈیننس دو ڈھائی سال پہلے ایکسپائر ہوا ہے، جس کو آپ رینیو نہیں کرسکتے، جس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔انہوںنے کہاکہ آپ نے اسٹیٹ بینک کو قرضوں کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا ہے یا بیچ دیا ہے تاہم آپ کہتے ہیں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کی وجہ سے یہ کرنا پڑا، جب 2018 میں آپ دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کے نعرے لگا رہے تھے تو اس وقت آپ کے ہماری اور پی پی پی کی بیلنس شیٹ تھی، اس کو دیکھتے ہوئے پھر وعدہ کیے جو اس حکومت کی ناکامی ہے، پچھلے ساڑھے تین سال جھوٹ بولتے رہے ہیں۔

اپوزیشن رہنما نے کہا کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسا ہے، آپ کا حلقہ اور کے پی کے سارے حلقے گواہی دے رہے ہیں کہ آپ نے عوام پر ظلم کیا ہے اور آج مزید ظلم کرنے جارہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام نے ہم 342 لوگوں کو منتخب کرکے بھیجا ہے تاکہ ہم ان کے مفادات کا تحفظ کریں لیکن آپ نے دودھ سے استثنیٰ بھی واپس لے رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ آپ کی رولنگ غیرآئینی ہے اور میں اس کے ساتھ اتفاق نہیں کر رہا ہے، آپ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ 17 تاریخ کو دوآرڈیننس ختم ہوئے، ایک پچھلے مہینے اور ایک کل ہوا ہے، اس ایوان کو مذاق نہ بنائیں، اس کی تکریم کا خیال رکھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کا کچھ خیال کریں، ہمارے ملک میں پہلے بھی 16 دسمبر کو قیامت ٹوٹی تھی، جب سقوط ڈھاکا ہوا تھا، آج پاکستان کا معاشی سرینڈر ہورہا ہے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو اپنے ممبرز کو کرسی پر کھڑا نہیں کرسکتے وہ حکومت کیا گرائیں گے، جو مودی کو گھر بلاتے رہے وہ قومی سلامتی کی بات کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، یہ کہتے ہیں اسٹیٹ بینک کو آزادی دی تو تباہی آجائے گی، ان میں اور ہم میں فرق ہے، یہ ڈینگی پر کام کریں تو خود ہی اشتہار جاری کرتے ہیں، ہم نے کورونا کے خلاف کام کیا جس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں اور دنیا نے کیا۔

یہ لوگ 10 سال میں ایک روپے کے ترقیاتی کاموں کی منظوری نہیں کراسکے، گزشتہ چار ماہ میں 400 ارب کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری اسی ایوان نے دی۔اسد عمر نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ آرڈیننس ایکسپائر ہوچکے ہیں، یہ ایک تکنیکی نکتہ ہے، اپوزیشن سیاستدان خود ایکسپائرڈ ہوچکے ہیں کیا ان کی تقریریں سننا ہم پر لازم ہے، دنیا نے دیکھا کہ جب ہماری سرحدی خلاف ورزی ہوئی تو ہم نے ان کا جہاز گرایا، انڈین اسکوارڈن لیڈر کو قیدی بنایا، چائے پلائی اور ذلیل کرکے نکالا، دنیا نے دیکھا کیسے ہم نے ملکی دفاع کو محفوظ بنایا مگر ان کا لیڈر تو کہتا تھا کہ ٹانگیں کانپتی ہیں۔

پیپلزپارٹی کے راجا پرویز اشرف نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس طریقے سے ترامیم کی جا رہی ہیں اس سے پارلیمنٹ کا تقدس پامال ہو رہا ہے، آئین کے تحت چلیں تو دو تہائی اکثریت درکار ہوگی، آج پارلیمنٹ پر داغ لگایا گیا، قانون سازی کسی جماعت کی نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کیلئے کی جا رہی ہے، خواجہ آصف کے بیان پر اسد عمر نے کیا جواب دیا، سب نے سنا ہوگا، اور قوم مایوس بھی ہوئی ہوگی۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ میں کبھی بھی نہیں چاہتا کہ ہاوس کا ماحول خراب ہو، لیکن حکومت کا طریقہ کار ناقابل برداشت ہے، بتایا جائے ملک میں مہنگائی ہے یا نہیں مہنگائی کنٹرول کرنے کا کہیں تو جواب آتا ہے آپ کی وجہ سے ہے، حکومت ہر محاذ پر فیل ہوئی، یہ لوگ پاکستان کے عوام کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، اپوزیشن کو اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر مجبور کیا جاتا ہے، یہ سوئے رہتے ہیں، انہیں نہیں پتہ تھا کہ آرڈیننس ایکسپائر ہو گیا، یہ اسپیکر کی کرسی کو استعمال کر رہے ہیں، مجبور کر رہے ہیں کہ اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے، اسپیکر صاحب سے درخواست ہے کہ نیوٹرل رہیں۔

قبل ازیں وفاقی وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی میں جمع تحریری جواب میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں 37 ارب 85کروڑ ڈالرکے غیر ملکی قرضے لیے ہیں۔قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ حکومت کی جانب سے لیے گئے غیرملکی قرضوں کے حوالے سے تحریری جواب جمع کرادیا۔وزارت خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ تین سال کے دوران 37 ارب 85کروڑ ڈالرکے غیر ملکی قرضے لیے اور ایک ارب ڈالر گرانٹس کی صورت میں ملے۔

جواب میں کہا گیا کہ اسی عرصے کے دوران 29 ارب 81 کروڑ ڈالر قرضوں اور سود کی واپسی کی مد میں ادا کیے۔وزارت خزانہ نے کہا کہ سابق دور حکومت میں پانچ سال کے دوران 49 ارب 76 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے گئے اور اس وقت پاکستان کے ذمہ مجموعی مقامی و غیر ملکی قرض 414 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔بیان کے مطابق ستمبر 2021 تک مجموعی مقامی قرضوں کا حجم 264 کھرب روپے تک پہنچ گیا تھا اور غیر ملکی مجموعی قرضے 150 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

اس سے قبل منی بجٹ کی منظوری کیلیے وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں کابینہ نے فنانس ترمیمی بل 2021 کی منظوری دیدی۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق 144 اشیا پر ٹیکس لگے گا جو یا تو جی ایس ٹی سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہیں یا ان پر5فیصد سی12فیصد ٹیکس عائد ہے۔ اب ان پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ان اشیا پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے سے ٹیکس وصولی 352ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ بہت سی اشیا پر پہلی بار ٹیکس عائد کیا جائے گا اور ان سے حاصل ہونے والے ٹیکس تخمینے کا ایف بی آر کو اندازہ نہیں ہے۔

موبائل فون کالز پر انکم ٹیکس ریٹ10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے سے مزید 7ارب حاصل ہونگے، شیرخوار بچوں کیلئے دودھ کی تیاری کیلئے استعمال ہونے والے درآمدی خام مال پر زیرو ریٹنگ ٹیکس واپس لیکر اس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے گا جس سے ریونیو میں نو ارب روپے اضافہ ہوگا۔ اس مد میں ٹیکس آمدن کا تخمینہ 15 ارب لگایا گیا ہے۔شیرخوار بچوں کی اشیا کی مد میں بھی سیلزٹیکس لگایا گیا ہے اور اس سے بھی 6 ارب ریونیو حاصل ہوگا۔

ڈیوٹی فری شاپس کی اشیا پر بھی17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے۔ چونکہ ان پر پہلی بار ٹیکس لگایا گیا ہے اس لیے حاصل ہونے والے ٹیکس کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔850 سی سی سے بڑی کاروں پر17فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے گا جبکہ درا?مدی الیکٹرک گاڑیوں کے سی بی یوز پر ٹیکس5 فیصد سے بڑھا کر17 فیصد کر دیا جائے گا۔ بزنس ٹو بزنس ٹرانزیکشنز پر ٹیکس بھی 16.9 فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کیا جائے گا۔

ادویات کے خام مال پر بھی17فیصد جی ایس ٹی لگایا جائے گا جس سے سب سے زیادہ45 ارب روپے حاصل ہوں گے۔30 ارب روپے درآمدی مرحلے پر حاصل ہوں گے جبکہ 15 ارب روپے لوکل سٹیج پر حاصل ہوں گے تاہم ایف بی آر کا کہنا ہے کہ خام مال زیرو ریٹڈ ہی رہے گا اور ان پر ری فنڈ دیا جائے گا۔ بریڈ تیار کرنے والی بیکریوں، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز اور دکانوں پر 17 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا جس سی5 ارب روپے حاصل ہوں گے تاہم روٹی، نان، چپاتی، شیرمال بنانے والے تندور بدستور مستثنیٰ رہیں گے،میس میں تیار اور سرو کیے جانے والے کھانے، تیار شدہ کھانے او رمٹھائیاں تیار کرنے والے ہوٹلز، کیٹرررز، دکانوں، ریسٹورنٹس پر7.5 فیصد سے بڑھا کر17 فیصد کر دیا جائے گا جس سے ہوٹلنگ مہنگی ہوجائے گی۔

درآمد شدہ سبزیوں پر 7 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ریٹیل پیکیجنگ میں فروخت نہ ہونے والی سرخ مرچوں پر ٹیکس لگے گا۔ ملنگ انڈسٹری کیلئے اناج اور مصنوعات پر 5 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور چاول، گندم، گندم اور میدہ کے آٹے کی مقامی سپلائی مستثنیٰ رہے گی۔ ماچس پر بھی17 فیصد کے حساب سے ٹیکس لگے گا۔ڈیری پراڈکٹس، سوسیجز، مرغی کا گوشت اور اسکی دیگر مصنوعات جو کہ کسی برانڈ نام یا ٹریڈ مارک کے تحت ریٹیل پیکنگ میں فروخت ہوتی ہیں ان پر بھی 17 فیصد ٹیکس عائدہوگا،برانڈ نام کے تحت خوردہ پیکنگ میں فروخت ہونے والے فلیورڈ دودھ، پر ٹیکس کی شرح دس فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی جس سے ایک ارب روپے ریونیو ملے گا۔

دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی، دودھ اور کریم پر بھی ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا جائے گا۔ ڈیری مصنوعات سے متعلق مشینری اور آلات پر 5 فیصد کے بجائے اب 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔موبائل فونز پر مقررہ شرح کے مقابلے میں 17 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خوردہ دکانوں سے کی جانے والی سپلائیز جو کہ ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ مربوط ہیں جن پر فی الحال 10 فیصد ٹیکس عائد ہے اب 16 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

منجمد تیار یا محفوظ ساسیجز پر ٹیکس کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی غیر ملکی حکومت یا تنظیم کی جانب سے تحفہ یا عطیہ کے طور پر موصول ہونے والی اشیاپر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔قدرتی آفت کی صورت میں موصول ہونے والی تمام اشیا کی درآمد پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ غیر منقولہ تحائف کے طور پر ڈاک کے ذریعے درآمد کیے گئے سامان پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

درآمد شدہ نمونے، مانع حمل ادویات اور لوازمات پر ٹیکس سے 200 ملین روپے ملیں گے۔ سلائی مشینوں پر 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔ زندہ جانوروں اور زندہ مرغیوں کی درآمد پر پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا اور اس سے 700 ملین روپے کے محصول حاصل ہوں گے تاہم مقامی سپلائی اس سے مستثنیٰ رہے گی۔کھیت کی تیاری کے آلات، بیج اور پودے لگانے، آبپاشی، نکاسی آب، اور زرعی کیمیکل کی تیاری، کٹائی، تھریشنگ کے آلات اور فصل کے بعد ہینڈلنگ کے آلات پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا۔

پولٹری سیکٹر کی مشینری پر جی ایس ٹی 7 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد، ملٹی میڈیا پراجیکٹس پر 10 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا، لیتھیم آئرن بیٹری پر ٹیکس 12 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی۔چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور جیولری آرٹیکلز پر 17 فیصد ہو جائے گا۔ توانائی کے قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ، آبپاشی کے آلات پر بھی ٹیکس لگے گا۔

آئل سیڈز کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی، کوئلے کی کان کنی سے متعلقہ BMR سسٹم کی مشینری اور آلات ، گیس پروسیسنگ پلانٹس اور آئل اینڈ گیس فیلڈ پراسپیکٹنگ، پلانٹ، مشینری، کانکنی کے آلات، کوئلے کی کان کنی کی مشینری، تھر کول فیلڈ کے لیے درآمد کیے جانے والے آلات پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت BMR یا بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں کے لیے مشینری، آلات پر 14 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا جبکہ BMR یا بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں کے لیے مشینری، آلات اور اسپیئرز پر 17 فیصد جی ایس ٹی بھی عائد ہوگا جس سے 42 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔

اسی طرح اسی مد میں نیوکلیئر یا قابل تجدید توانائی کے وسائل سے بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں پر 6 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس اور سولر انرجی کے ساتھ استعمال کی اشیاء پر 12 ارب روپے کے ٹیکس لاگائے جا رہے ہیں۔ 12 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی۔

حتی کہ پی او ایس مشین کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا، برآمد شدہ سامان جو ایک سال کے اندر درآمد کیا جاتا ہے اس پر 3 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوں گے۔موبائل فون کے مقامی مینوفیکچررز کی طرف سے موبائل فون کی تیاری کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں اور سیاحوں کی جانب سے درآمد کیے جانے والے ذاتی ملبوسات اور سامان، پر بھی ٹیکس لگے گا۔

زیرو ریٹڈ سیکٹر سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ مکمل ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم والی اشیائ پر بھی سیلز ٹیکس 17 فیصد تک کئے جانیکا امکان ہے جبکہ مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ بھی ختم ہو سکتی ہے تاہم کھانے پینے کی اشیاء اورادویات پر ٹیکس چھوٹ برقرار رہے گی، لگڑری اشیاء کی درآمد اوردرآمدی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی سفارش ہے، ٹیکس وصولی ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6 ہزار 100 ارب کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ریفائنری سٹیج پر لاگو ہوگا۔علاوہ ازیں حکومت آئی ایم ایف شرائط پوری کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کرے گی۔ 12 جنوری سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔