ایوان بالا اجلاس:سانحہ مری پر بحث ، اپوزیشن کا حکومتی نااہلی کی مذمت

جوڈیشل کمیشن یا دونوں ایوانوں کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ، حکومتی اراکین کا دفاع، 12گھنٹے گزرنے کے باوجود پی ڈی ایم اے،این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت نے کیوں بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا:شیری رحمان

منگل 11 جنوری 2022 23:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جنوری2022ء) ایوان بالا اجلاس:سانحہ مری پر بحث ، اپوزیشن کا حکومتی نااہلی کی مذمت ، جوڈیشل کمیشن یا دونوں ایوانوں کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ، حکومتی اراکین کا دفاع، ڈپٹی چیئرمین کی زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس شروع ہوا تو سانحہ مری پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ 12گھنٹے گزرنے کے باوجود پی ڈی ایم اے،این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت نے کیوں بے حسی کا مظاہرہ کیا برفباری میں لوگ پھنسے ہیں پوری دنیا میں آفات آتے ہیں لیکن یہ کن کی غفلت ہے اگر سندھ حکومت سمندر میں یہ معاملہ ہوتا تو کیا وفاق حکومت ہمیں چھوڑتے دو دن پہلے ٹوئٹ لگایا گیا کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری آگئی سیاحت کو فرو غ ملا ہے اور پھر سانحہ کے بعد اس ٹوئٹ کو ہٹایا گیا اور22 افراد کے جاں بحق ہونے پر سیاحوں کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے تو ریاست کی کیا ذمہ داری ہے لاہور موٹروے واقعے پر بھی متاثرہ عورت کو قصور وار ٹھہرایا گیا تھا کہ رات کو کیوں نکلی اور وہی کام سانحہ مری میں بھی کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سیاحت کو فروغ دینے کیلئے انفراسٹرکچر بنانا چاہئے،موسم خراب ہونے کی پیشنگوئی پر حکومت کو شہریوں کا تحفظ خود کرنا ہے یہ ٹیکس اسلئے نہیں دئیے جارہے کہ حکومت ان کی مدد نہ کریں اور عام عوام کو قصور وار ٹھہرایا جائے،یہ ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے کہ طوفانی برف باری میں ریلیف دی جاتی ہے،ہیلی کاپٹر اور برف کو ہٹانے والی مشینری کہاں تھے،ریسکیو نہیں کیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سانحے ڈبل ہو جاتے ہیں صرف درخت لگانے سے سونامی بلین ٹری لگانے سے حکومت کو معافی مانگنی چاہئے،غفلت برتنے پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے،ہم لاشوں پر سیاست نہیں کرتے اور نہ مذاق اڑاتے ہیں۔سینیٹر طاہربزنجو نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے چھوٹے بھائی کی وفات پر تعزیت کرتا ہوں اس کے بعد پوری دنیا میں آفات آتے ہیں اگر کوئی حکومت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں تو ان کی تعریف کی جاتی،اگر محکمہ موسمیات کی کوئی سنتا تو بہت سی جانیں محفوظ ہوجاتی افسوس کا مقام ہے کہ حکومت سیاحوں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اس واقعے کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے،حکومت اس پر جوڈیشل کمیشن بنائے سب کا یہی مطالبہ اور میرا بھی یہی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ صوبائی حکومت پنجاب کی بنائی ہوئی کمیٹی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں،یہ ایڈمنسٹریشن کی کمیٹی ہے اور اس کمیٹی میں غفلت برتنے والے افراد خود ہی اپنے ہی لوگوں کی انکوائری کر رہے ہیں،اگر پنجاب حکومت اس بات پر سنجیدہ ہوتے تو اس پر ایک کمیشن بناتے اور اس کے پیچھے ایک لیگل فورس ہوتی تو اس کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں،میری وفاقی حکومت سے استدعا ہے کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر دونوں ایوانوں کی کمیٹی بنائی جائے،تب تک اس معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا ہے۔

سینیٹر مشتاق نے کہا کہ سانحہ مری میں معصوم بچوں اور والدین کی موت سانحہ نہیں ہے بلکہ قتل ہے اس پر انکوائری جوڈیشل کمیشن میں ہو اور غفلت برتنے والے تمام افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔انہوں نے کہا کہ میں چند سوالات اٹھاتا ہوں محکمہ موسمیات نے اس موسم کے حوالے سے الرٹ جاری کیا جس کو پنجاب حکومت پی ایم ہاؤس اور این ڈی ایم اے کوبھیجا گیا لیکن پابندی نہیں لگائی گئی،جب پابندی لگائی تو بہت دیر ہو چکی تھی،اسلئے یہ قتل ہے۔

ڈی سی،اے سی آفس ،ڈی پی او آفس کیا کر رہے ہیں،برف ہٹانے والی مشین کو اس لئے نہیں چلایا گیا کہ گاڑی میں ڈیزل نہیں ہے۔اس کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر ،پینے کا پانی500روپے،دھکا دینے کیلئی5000روپے اور 50ہزار روپے کمرے کا کرایہ لیا گیا،ایک آدمی بیوی کے زیور گروی رکھ کر رات گزارتے ہیں لیکن انتظامیہ غائب تھا جب لوگ 18گھنٹے سے سردی سے مر رہے تھے تو سرکاری ریسٹ ہاؤس کیوں نہیں کھولے گئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی ٹائیگر فورس کہاں ہے،الخدمت فاؤنڈیشن موجود تھی،کہیں وہ چڑیا گھر میں بند ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم کی بہن کیلئے چترال میں ریسکیو کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر ہوتا ہے اور 40کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی ریسکیو نہیں تو پھر یہ ملک امیروں کا ہے غریب لوگوں کا نہیں ہے۔سینیٹر فیض احمد نے کہا کہ سانحہ مری انتہائی دکھ بھرا ہے،ریاست مدینہ میں40کلومیٹر کے فاصلے پر مدد نہیں سندھ تک مدد کی جاتی ہے لیکن یہاں تو حکمران سو رہے تھے۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے بھائی کی وفات پر تعزیت کرتا ہوں اور پھر سانحہ مری پر اپنے بات کا آغاز کرتے ہوئے اتنا کہہ رہا ہوں کہ لاکھوں لوگ جارہے ہیں اور ان کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا،حکومت کی غفلت ہے،وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر کے پی کے لوگ نہ آتے تواتنا رش نہ ہوتا یہ حکومت کی نااہلی ہے بچوں جوانوں اور بوڑھوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں حکومت کا ہاتھ ہے،مری میں کوئی نرخنامہ نہیں ہے،مہنگائی عروج پر تو اس پر کوئی توج نہیں ہے اور سیاحت سے وفاقی وزیر خوش ہور ہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم غریب اور امیر کیلئے ایک قانون کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں پر40میل کے فاصلے پر کوئی ہیلی کاپٹر نہیں تھا تمام ذمہ داران کو سزا دینے کی ضرورت ہے،وزیراعظم خود اس معاملے پر از خود ایکشن لیں۔سینیٹر مصدق مسعود ملک نے کہا کہ حکومت کی نااہلی ہے کہ کوئی برف کو ہٹانے کا انتظام نہیں کیا گیا،برف نے گاڑیوں کے سیلنسر کو بند کردیا اور موت نے ان سب22افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،گیس چمبر موت تکلیف دہ ہے،یہ وہ نقشہ ہے جس سے ہمارے لوگ گزرے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہیں ڈیزل نہیں تھا اور کہیں گاڑیاں خراب تھیں ان کو موت سے بچانے کیلئے صرف ایک بیلچہ کی ضرور تھی،تمام انتظامیہ موجود تھی لیکن کوئی نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کو روکا جاسکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا،حکومت سے گزارش ہے کہ آئندہ ایسے معاملے کے لئے تمام مشینری کو ایکٹو کرے تاکہ قیمتی زندگیاں بچائی جاسکیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ قائدایوان نے کہا کہ یہ ایک انسانی پہلو ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اس واقعے کا غیر انسانی پہلو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا،الرٹ جاری ہونے کے باوجود کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی،یہاں یہ صرف اپوزیشن کیلئے حکومتی ترجمانوں کو تیار کیا جاتا ہے باقی کسی معاملے پر تیاری نہیں ہے،پوری دنیا میں کئی ممالک میں برف پڑتی ہے لیکن وہاں تو اس طرح کے واقعے نہیں ہوتے،حکومت غلطی کا اعتراف کرے اور اگر معافی کا احساس نہیں ہے تو پھر آپ بہانے تلاش کرتے ہیں،پنجاب نے پولیس کی کمیٹی بنائی ہے وہ کس طرح این ڈی ایم اے کے گریبان میں ہاتھ ڈالے گی۔

انہوں نے کہا کہ رضا ربانی کی کمیٹی کی تائید کرتا ہوں جوڈیشل کمیشن یا دونوں ایوانوں کی کمیٹی بنائی جائے۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے سانحہ مری پر بحث لپیٹتے ہوئے جیسے ہی بات شروع کی تو اپوزیشن کے رہ جانے والے سینیٹرز نے شور مچانا شروع کیا کہ ان کو بات کرنی دی جائے جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ 2گھنٹے پورے ہوگئے ہیں اور بحث کو سمیٹا جارہا ہے،اس پر اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کردی اور اجلاس جمعے کو10بجے تک ملتوی کردیاگیا