سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سماجی کارکن محمد زادہ اگروال مرحوم کو تمغہ شجاعت سے نوازنے کی سفارش

جمعرات 13 جنوری 2022 17:50

اسلام آباد۔13جنوری  (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی - اے پی پی ۔13 جنوری2022ء) :سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے  انسانی حقوق نے نومبر 2021 میں  مالا کنڈ میں  سماجی کارکن محمد زادہ اگروال کے قتل کے مرکزی ملزم کی جلد از جلد گرفتاری، منشیات فروشوں کے خلاف سخت ایکشن لینے، واقعے کی جوڈیشنل انکوائری کرنے اور  لواحقین کو جلد سے جلد معاوضے کی ادائیگی کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے  مرحوم محمد زادہ اگروال کو تمغہ شجاعت سے نوازنے کی سفارش کر دی۔

کمیٹی نے  وزارت انسانی حقوق سے سندھ میں امن و امان اور خاص طور پر ضلع لاڑکانہ کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کر لی۔ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی جانب سے 10نومبر 2021کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ناظم جوکھیو کے قتل، سینیٹر فدا محمد اور سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے 10نومبر 2021کو منعقد ہونے والے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے مالا کنڈ میں سوشل ورکر اور میڈیا پرسن کی ٹارگٹ کلنگ، بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالب علموں کے اغوا کے نتیجے میں احتجاج کے علاوہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے تین افراد کے لاپتہ ہونے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹر  فدا محمد اور سینیٹر مشتاق احمد عوامی اہمیت کے معاملہ برائے مالا کنڈ میں سوشل ورکر اور میڈیا پرسن کی ٹارگٹ کلنگ کے معاملے کا کمیٹی اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ مالاکنڈ میں 8نومبر کو ایک سماجی کارکن محمد زادہ اگروال کو منشیات فروشوں کے خلاف آواز اٹھانے پر قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں منشیات عام ہونے کی وجہ سے نوجوان اس کے عادی ہو رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے محمد زادہ کے قتل پر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں دو ایم پی اے، متعلقہ ڈی سی اور اے سی نے عوام کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ ملزمان کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے گا۔ ان کے خلاف کیس میں دہشت گردی کی دفعہ لگائی جائے گی۔ متاثرہ خاندان کو امداد اور ایک فیملی ممبر کو سرکاری نوکری دی جائے گی جبکہ  معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے گی اور علاقے کو منشیات کے اڈوں سے پاک کیا جائے گا۔

جس پر لوگوں نے احتجاج ختم کر دیا۔ مگر جو رپورٹ آئی ہے اُس کے مطابق اصل مجرم گرفتار نہیں ہوا صرف کرائے کے قاتل پکڑے گئے ہیں۔ جوڈیشل انکوائری کا حکم ابھی تک نہیں دیا گیا اور متاثرہ فیملی کو معاوضہ بھی نہیں ملا۔سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ مالا کنڈ ڈویژن میں ایک مسئلہ ہے کہ یہاں پولیس ایکٹ نہیں ہے۔ پولیس کی جگہ لیویز خدمات انجام دے رہی ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔

جس پر کمشنر مالا کنڈ نے اجلاس کو  بتایا کہ مالا کنڈ ڈویژن میں قتل ہونے والے سماجی کارکن محمد زادہ اگروال قتل کیس کا ماسٹر مائنڈ تا حال گرفتار نہیں ہو سکا البتہ کرائے کے قاتل گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ اُس کی گرفتاری کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ منشیات فروشوں کے خلاف چار ٹیمیں بنا کر ایکشن لیا گیا اور 60سے زائد منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا۔

ملزم نثار کا شناختی کارڈ بلاک کر کے نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے وہ پنجاب میں کہیں چھپا ہوا ہے۔جوڈیشل انکوائری کیلئے صوبائی حکومت کو لکھا ہے منظوری کے بعد شروع کر دی جائے گی اور متاثرہ فیملی کو معاوضہ دینے کاپراسیس بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے محمد زادہ اگروال کے مرکزی ملزم کو جلد از جلد گرفتار کرنے اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت ایکشن لینے، جوڈیشنل انکوائری کرنے لواحقین کو جلد سے جلد معاوضہ دینے اور مرحوم محمد زادہ اگروال کو تمغہ شجاعت سے نوازنے کی سفارش کر دی۔

قائمہ کمیٹی نے محمد زادہ اگروال قتل کیس میں انتظامیہ کی بہتر کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ متعلقہ انتظامیہ اگر اسی طرح متحرک ہو تو جرائم کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔  قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ناظم جوکھیو کے قتل کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبہ سندھ میں پولیس ایف آئی آر مشکل سے درج کرتی ہے جب تک کسی سینئر پولیس افسران کی سرپرستی نہ ہوتو مقدمہ درج نہیں ہوتا۔

گزشتہ 9ماہ کے دوران 65قتل ہوئے پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی انہوں نے کہا کہ ناظم جوکھیو کو ایم این اے اور اُس کے بھائی ایم پی اے نے قتل کیا ایف آئی آر میں ایم این اے کا نام پولیس درج نہیں کر رہی تھی اور اس کیس میں دہشت گردی کی دفعہ بھی نہیں لگائی گئی اور پانچ گرفتار افراد آج بھاگ بھی گئے ہیں۔ آئی جی سندھ مشتاق مہر نے ویڈیو لنک کے ذریعے قائمہ کمیٹی کو ناظم جوکھیو قتل کیس پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صبح احاطہ عدالت سے فرار ہونے والے پانچ افراد  ابتدائی تفتیش کے مطابق ان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر وہ ہمیں مطلوب ہوتے تو کسی صورت وہ بھاگ نہیں سکتے تھے۔ آئی جی سندھ نے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں ان کے نام شروع میں نہیں تھے بعد میں مدعی کے کہنے پر شامل کئے گئے۔ انھوں  نے کہا کہ تفتیشی ٹیم چالان مکمل کر چکی ہے اور بھاگنے والے 5 افراد بے گناہ ہیں مگر میڈیا  پر غلط رپورٹ کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے اجلاس کو  بتایا کہ دہشت گردی کی دفعہ عدالت کے حکم پر لگائی جاتی ہے اور اگر ایف آئی آر درج کرانے کا مسئلہ ہو تو عدالتیں بھی اس معاملے کو دیکھتی ہیں۔

مدعی نے عدالت میں کہا تھا کہ ایم این اے ہمارا مجرم نہیں ہے مگر پولیس نے پھر بھی چالان کیا اور لواحقین کی مرضی سے ایف آئی آر میں لوگوں کے نام شامل کئے گئے۔ انھوں  نے کہا کہ ناظم جوکھیو کی بیوی کو ایک سکواڈ اور سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر معزز سینیٹر کو سندھ پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں تو وہ تحریری طور پر بھیجوا دیں آئی جی سندھ آفس اُ ن کے جوابات تحریری طور پر فراہم کر دے گا۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور سینیٹر سیمی ایزدی اس کیس کے حوالے سے سوالات و تحفظات کمیٹی کو فراہم کرے،قائمہ کمیٹی آئی جی سندھ سے تحریری جواب طلب کر لے گی۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق سے سندھ میں امن و امان اور خاص طور پر ضلع لاڑکانہ کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔ بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالب علموں کے اغوا کے نتیجے میں احتجاج کے علاوہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے تین افراد کے لاپتہ ہونے کے معاملات کا بھی کمیٹی اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

آئی جی بلوچستان نے کمیٹی کو بتایا کہ لاپتہ افراد میں سے 80فیصد لوگ واپس آ جا تے ہیں جو یونیورسٹی کے 2 طلبہ لاپتہ ہوئے تھے اُن کی تفتیش کی جا رہی ہے وہ یونیورسٹی سے باہر غائب ہوئے تھے البتہ جبری گم شدگی کے کیس قرار نہیں دے سکتے۔  انہوں نے قائمہ کمیٹی کو تینوں لاپتہ افراد کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کہ حوالے سے ایک کمیشن بھی بنایا گیا ہے جو اسطرح کے کیسز کو دیکھتا ہے بہتر ہے قائمہ کمیٹی ان معاملات کو کمیشن کو ریفر کر دے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ ستمبر 2020میں موجودہ حکومت نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کا مقصد اسطرح کے واقعات کی وجوہات اور تدارک کا جائزہ لینا تھا اُس کو بھی یہ کیسز ریفر کر دیتے ہیں تا کہ لا پتہ افراد جلد سے جلد مل سکیں۔ قائمہ کمیٹی کو شیبا گل اور اس کے والد کے قتل کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو  بتایا گیا کہ یہ ایک زمین کا جھگڑا تھا اور شیبا گل کے والد پر قتل کے ملز م کو شبہ تھا، ملزم اُس دن اسلحہ سمیت گرفتار کر لیا گیاتھا۔

قائمہ کمیٹی  کے اجلاس میں سینیٹرز پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، فلک ناز، سیمی ایزدی، گوردیپ سنگھ، سیف اللہ ابڑو، فدا محمد، مشتاق احمد، کامران مرتضی کے علاوہ کمشنر مالاکنڈ دویژن، ڈی جی وزارت انسانی حقوق، ہوم سیکرٹری صوبہ خیبر پختونخوا، ڈی سی مالا کنڈ، آئی جی بلوچستان اور ویڈیو لنک کے ذریعے آئی جی سندھ نے شرکت کی۔