کلب ہاؤس: بھارت میں مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا ایک نیا انداز

DW ڈی ڈبلیو بدھ 19 جنوری 2022 14:40

کلب ہاؤس: بھارت میں مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا ایک نیا انداز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2022ء) بھارت میں مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا ایک اور نیا معاملہ سامنے آیا ہے، جہاں چیٹ ایپ 'کلب ہاؤس' پر ایک گروپ نے ان کے خلاف فحش اور توہین آمیز باتیں پھیلانے کی کوشش کی۔ حکام نے اس گروپ کے خلاف پولیس سے فوری طور پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کلب ہاؤس چیٹ ایپ میں ایک ساتھ متعدد افراد آڈیو کے ذریعے بات چیت کر سکتے ہیں اور اسی طرح کے ایک گروپ میں بہت سے لوگوں نے معروف مسلم خواتین کے خلاف فحش تبصرے کیے، جسے بعض افراد نے ریکارڈ کر لیا اور پھر اسے دیگر سوشل میڈیا گروپ پر بھی شیئر کر دیا گیا۔

گزشتہ ماہ ہی بھارت کی تقریبا سو سرکردہ مسلم خواتین کو ان کی تصاویر کے ساتھ ایک مخصوص ایپ پر انہیں نیلامی کے لیے لگایا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں بعض سخت گیر ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

کارروائی کا مطالبہ

نئی دہلی میں ریاستی خواتین کمیشن نے اس سلسلے میں دہلی پولیس کو ایک نوٹس بھیجا ہے اور ملزمین کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا کہا ہے۔

ادارے نے پولیس سے کہا ہے کہ جو گروپ بھی 'کلب ہاؤس' میں مسلم خواتین کے خلاف اس طرح کی بیہودہ باتیں کر رہا ہے، اس کے خلاف فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

خواتین کے کیمشن کا کہنا ہے کہ اس چیٹ کا از خود نوٹس لیا گیا ہے، جس میں، "شرکاء کو واضح طور پر مسلم خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بناتے ہوئے فحش، بیہودہ اور تضحیک آمیز تبصرے کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

" کمیشن نے اس سلسلے میں پولیس سے پانچ دن کے اندر ایکشن سے متعلق رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

کمیشن کی صدر سواتی مالیوال نے اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "کسی نے مجھے ٹوئٹر پر کلب ہاؤس ایپ پر ہونے والی تفصیلی آڈیو گفتگو ٹیگ کی تھی، جس میں مسلم خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے خلاف نفرت انگیز جنسی تبصرے کیے گئے ہیں۔

"

ان کا مزید کہنا تھا، "مجھے اس بات پر غم و غصہ ہے کہ ملک میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی ضرورت ہے اور اسی لیے میں نے دہلی پولیس کو نوٹس جاری کر کے اس معاملے میں فوری ایف آئی آر درج کرنے اور گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔"

پولیس نے کیس درج کیا

دہلی پولیس نے پہلے اپنی ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اسے اس حوالے سے خواتین کی کمیشن سے نوٹس موصول ہوا اور پھر منگل کو رات دیر گئے اس نے اس معاملے میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات کہی۔

سائبر سیل سے وابستہ ایک سینیئر پولیس افسر کے پی ایس ملہوترا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور جنسی طور پر ہراساں کر نے کے ساتھ ہی مذہب کی توہین کرنے اور مذہبی جذبات مجروح کرنے سے متعلق ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا چلن

بھارتی مسلم خواتین کی آن لائن تضحیک یا جنسی طور پر انہیں ہراساں کرنے کا یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب کچھ روز قبل ہی پولیس نے سرکردہ مسلم خواتین کو آن لائن نیلام کرنے کے الزام میں چند افراد کو گرفتار کیا ہے۔

سال نو کے آغاز پر سوشل میڈیا پر 'بُلّی بائی' نامی ایک ایپ پر 100سے زائد مسلم خواتین کی تصویریں ڈال دی گئی تھیں اور اس پر لکھا دیا گیا تھا کہ یہ سب برائے فروخت ہیں۔ جن خواتین کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی تھیں، ان میں معروف اداکارہ شبانہ اعظمی سمیت دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کی اہلیہ، متعدد صحافی، سماجی کارکن اور سیاست دان شامل ہیں۔

اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں اور گزشتہ عید کے موقع پر بھی 'سُلّی ڈیلز' نامی ایک ایپ تیار کی گئی تھی، جس پر مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی تھی۔ تاہم ان کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ماہرین کے مطابق اسی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔

دہلی کی معرو ف ریڈیو جاکی (آر جے) صائمہ کا نام بھی 'بُلّی بائی' کی فہرست میں شامل تھا۔

اس وقت ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں صائمہ نے کہا تھا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ "میرے لیے سب سے تعجب کی بات ہے کہ بھارت میں اب کچھ بھی حیران کن بات ہی نہیں رہی۔"

ان کا کہنا تھا، "بھارت میں گالی دینا اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف توہین آمیز باتیں کرنا ایک کلچر بنتا جا رہا ہے۔ اب کھلے عام حیوانیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔ تکلیف دہ اس لیے بھی ہے کہ لگتا ہے کہ ملک کا قانون مر چکا ہے۔"

مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں خواتین بالخصوص مسلمانوں کی ٹرولنگ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی اس الزام کی تردید کرتی ہے، تاہم اس کے رہنما شاذ و نادر ہی اس طرح کی ٹرولنگ کی مذمت کرتے ہیں۔