افغانستان کے مٹھی بھر سکھ باشندے کیا کریں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 20 جنوری 2022 19:40

افغانستان کے مٹھی بھر سکھ باشندے کیا کریں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2022ء) 1970ء کی دہائی میں افغانستان میں سکھوں کی آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی۔ ہندو کش کی اس ریاست کے مسلسل جنگ و جارحیت سے دوچار رہنے کے سبب یہ ملک غربت، پسماندگی، تنازعات اور عدم برداشت کا گہوارہ بن گیا۔ افغانستان کے کئی ملین باشندے ملک چھوڑنے پر مجور ہوگئے، خاص طور سے اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے بیشتر نے جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

افغانستان کی سکھ برادری

کابل کے ایک گردوارے کی باقاعدگی سے نگرانی کرنے اور وہاں منعقد ہونے والے دعائیہ اجتماعات اور دیگر مذہبی رسومات کا اہتمام کرنے والے گُرنام سنگھ آج اپنی اسی عبادت گاہ میں کھڑے ہیں اور اس کی ویرانی پر صدمے کا اظہار کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں کبھی عبادت کے لیے آنے والوں کا بڑا ہجوم ہوتا تھا، اب یہ صرف مٹھی بھر رہ گئے ہیں۔

''افغانستان ہمارا ملک ہے مگر ہم اسے انتہائی ناامیدی کے عالم میں ترک کر رہے ہیں۔‘‘

افغانستان میں طالبان کی واپسی: سکھوں اور ہندوؤں کا کیا بنے گا؟

گُرنام سنگھ کے اندازوں کے مطابق سقوط کابل اور پھر افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اب اس ملک میں صرف 140 سکھ باشندے باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مشرقی شہر جلال آباد اور کابل میں ہیں۔

مسلم اکثریتی افغانستان میں سکھ طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ ان کے مختلف گردواروں کو انتہا پسندوں کے حملوں کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قابض ہونے کے بعد سکھوں نے اپنی مذہبی سرگرمیاں بہت کم کر دی ہیں اور اپنی عبادات و رسومات کی ادائیگی کے لیے اب افغانستان کے باقی ماندہ سکھ باشندے کابل کے شمال مغربی علاقے کارتہ پروان میں قائم گردوارے میں جمع ہوتے ہیں۔

گزشتہ سال نومبر تک اس گردوارے میں سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کی تین کاپیاں موجود تھیں۔ اب ان میں سے دو کاپیوں کو نئی دہلی منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ وہ وہاں محفوظ رہیں۔ اس وقت افغانستان میں غربت اور انتہاپسندی عروج پر ہے۔ ہر کسی بالخصوص سکھ اور دیگر اقلیتی گروپوں کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے افغانستان میں بازو 'دولت اسلامیہ خراسان‘ کی طرف سے حقیقی حملوں کے شدید خطرات لاحق ہیں۔

افغانستان کے ہندو اور سکھوں کا بھارت میں خیرمقدم ہے

سکھوں کی نقل مکانی

افعانستان میں طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت نے جلاوطن سکھوں کو ترجیحی ویزے اور طویل المدتی رہائشی اجازت ناےہ حاصل کرنے کی درخواستیں دینے کا موقع فراہم کیا۔ منجیت سنگھ ایک فارماسسٹ ہیں اور ان کی عمر چالیس برس ہے۔ ان کی بیٹی گزشتہ برس اپنے شوہر کے ساتھ افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت چلی گئی تھی تاہم منجیت سنگھ بھارت نہیں جانا چاہتے۔

ان کا شمار ان افغان سکھوں میں ہوتا ہے جو اس پیشکش کو ٹھکراتے ہیں۔ اس انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ''میں بھارت میں کیا کروں گا؟ وہاں نہ تو کوئی ملازمت ہے اور نہ ہی گھر۔‘‘ ایسے سکھ باشندوں میں سے اکثر کے مطابق افغانستان چھوڑنے کا مطلب اپنے روحانی گھر کو چھوڑنا ہو گا۔

کرتار پور صاحب جانے والے سیاحوں سے اپیل

افغان سکھ برادری کے ایک ساٹھ سالہ بزرگ منموہن سنگھ کا کہنا ہے، ''جب یہ گردوارہ ساٹھ سال پہلے بنایا گیا تھا، تب یہ پورا علاقہ سکھوں سے بھرا ہوتا تھا۔

‘‘ وہ کہتے ہیں، ''ہم یہاں ایک دوسرے کے سبھی دکھ سکھ بانٹ کر رہتے تھے۔‘‘

یہ گردوارہ باہر سے دیکھنے میں اس سڑک پر موجود دیگر عمارتوں سے مختلف نظر نہیں آتا۔ یہاں کی سکیورٹی تاہم اسے دیگر عمارتوں سے منفرد بنا دیتی ہے، یعنی دو بہت مضبوط دروازے، سکیورٹی بہت سخت، شناختی دستاویزات کی چیکنگ اور جسمانی تلاشی وغیرہ۔

گزشتہ برس اکتوبر میں نامعلوم مسلح افراد اس عمارت میں زبردستی داخل ہو گئے تھے اور اس عبادت گاہ میں گھس کر انہوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔

یہ واقعہ افغان سکھ برادری کے اذہان پر خوف و ہراس کی بازگشت کی صورت میں سوار ہے۔

دولت اسلامیہ خراسان کے حملے

مارچ 2020ء میں دولت اسلامیہ خراسان کے اراکین نے شور بازار میں واقع گردوارہ ہر رائے صاحب پر، جو ماضی میں سکھوں کا مرکز تھا، حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد افغان دارالحکومت کابل کے اس گردوارے اور قریب ہی تقریباﹰ 500 سال پرانے دھرم شالہ گردوارے کو بند کر دیا گیا تھا۔

سکھ برادری، نانک کی تعلیمات اور بھارت اور پاکستان کے مناقشات

اس دہشت گردانہ حملے میں پرمجیت کور کی بائیں آنکھ پر چھری ماری گئی تھی اور واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں اس کی بہن بھی شامل تھی۔ اس کے چند ہفتے بعد پرمجیت کور اپنا سامان باندھ کر نئی دہلی چلی گئی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ''ہمارے پاس کوئی کام نہیں تھا، مہنگائی بھی بہت تھی تو ہم بالآخر واپس آ گئے۔

‘‘ یہ گزشتہ برس جولائی کے مہینے یعنی طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔

اب پرمجیت کور، ان کے شوہر اور تین بچوں کو کارتہ پروان گردوارے سے کھانا ملتا ہے۔ ان کے بچے اسکول نہیں جاتے اور پرمجیت کور گردوارے کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتیں۔ یہ وہ واحد جگہ ہے، جہاں یہ خاندان خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ لیکن اب پرمجیت کور ملک سے باہر نکلنے کا سوچ رہی ہیں، امریکا یا کینیڈا جانے کے لیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور اگر وہ اپنے خاندان کے ساتھ اس وقت کسی دوسرے ملک چلی جائیں، تو شاید ان سب کی زندگیاں اور مستقبل دونوں بن جائیں۔

ک م / م م (اے ایف پی)