Live Updates

رانا شمیم کا کیس من پسند فیصلہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش ہے، شاہ محمود قریشی

جن جج پر الزام لگایا گیا ،اس بینچ میں شامل ہی نہیں تھے جو ضمانت کی درخواست کی سماعت کررہا تھا، وزیر خارجہ

جمعہ 21 جنوری 2022 16:36

رانا شمیم کا کیس من پسند فیصلہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش ہے، شاہ محمود ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2022ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ رانا شمیم کا کیس من پسند فیصلہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ قومی اسمبلی اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ روزو جو رانا شمیم کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اس میں ان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ سابق چیف جج نے توہین عدالت کی گئی ہے اور اس کا مقصد عدالت کے فیصلے کو متاثر کرنا ہے اور یہ عدالتی رائے میں یہ سارا عمل عدالت کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے رچایا گیا۔انہوںنے کہاکہ ایک جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے منسوب ہائی پروفائل کیس کی سماعت شروع ہوتی ہے اسی وقت ایک بیانِ حلفی سامنے آجاتا ہے جو یہ اشارہ کررہا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ایک حاضر جج (جسٹس عامر فاروق) کو ہدایات دیں کہ آپ نے فلاں کیس میں یہ کرنا ہے اور فلاح شخصیت کو آپ نے 2018 تک جیل میں رکھنا ہے۔

(جاری ہے)

شاہ محمود نے کہا کہ آپ اس کی ٹائمنگ دیکھئے، واقعہ 3 سال قبل رونما ہوتا ہے تاہم اس کا کئی ذکر سامنے نہیں آتا، اب جب اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں آتی ہے تو تاخیری حربے استعمال ہوتے ہیں 15 التوا حاصل کیے گئے تا کہ کیس طوالت اختیار کرجائے اور جب یہ اسٹوری سامنے آتی ہے تو کیس یہ شکل اختیار کرلیتا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ جن جج پر یہ الزام لگایا گیا وہ اس بینچ میں شامل ہی نہیں تھے جو ضمانت کی درخواست کی سماعت کررہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک آڈیو ٹیپ میڈیا کی زینت بنی اور کئی روز تک موضوع بحث بنی رہی اور فرانزیک کرنے پر ظاہر ہوا کہ ٹیپ حقائق پر مبنی نہیں ہے بلکہ مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر مرتب کی گئی ہے یعنی جعلی ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب کو اپنے ماضی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ایک جانب ہم سب آزاد عدلیہ کے دعوے دار ہیں لیکن کہتے کیا ہے اور کرتے کیا ہے، قول اور فعل میں تضاد لمحہ فکریہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ جب ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا تو سود مند ثابت نہیں ہوا، جب جسٹس قیوم کو ٹیلفون کر کے من پسند فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی وہ سود مند ثابت نہیں ہوئی اور حالیہ تاریخ میں جب مرحوم جج ارشد ملک کو بلیک میل کیا گیا اور بے گناہی کا اعتراف حاصل کرنے کے لیے پورا ماحول بنایا گیا تو وہ بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔انہوںنے کہا کہ اب رانا شمیم کا بیانِ حلفی کا معاملہ بظاہر عدالت کی کارروائی متاثر کرنے اور ایک خاص سمت میں فیصلے حاصل کرنے کی ایک اور کوشش معلوم ہوتی ہے، یہ فعل بہت خطرناک ہے اور اس کا ہم سب کو نوٹس لینا اور تدارک کرنا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ تنقید برائے تنقید کی جاتی ہے جس سے ملک میں مایوسی پھیلتی ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے اور اگر اس کا مقصد بہتری جانب گامزن معیشت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں اور اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ جو خرابیاں اور مشکلات ہیں وہ نااہل معاشی ٹیم کی وجہ سے ہیں، درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2 سال میں بہت مشکل فیصلے کیے، کڑوی گولی کھائی، تکلیف دہ فیصلے لیے گئے تا کہ معیشت میں استحکام آئے، لوگوں نے مشکلات اٹھائیں، ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن تیسرے سال میں معیشت استحکام کے بعد بحالی کی جانب گامزن ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات میں نہیں بلکہ عالمی بینک، دی اکانومسٹ اور بلوم برگ جیسے ادارے کہہ رہے ہیں جو میری اور آپ کی بولی نہیں بلکہ اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج یہ ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 5.37 فیصد کو چھو رہی ہے، مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا طرہ امتیاز تھا کہ ہم نے 5 فیصد شرح نمو حاصل کی جبکہ آج کووڈ کی وجہ سے معیشتیں سکڑ رہی ہیں ایسے میں ہم نے 5.37 فیصد شرح نمو حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے زرعی شعبے پر جمود طاری تھا آج عالمی بینک کا سروے کہہ رہا ہے کہ اس میں 3.3 فیصد نمو ہوئی، بنیادی طور پر ہم زرعی معاشرہ ہیں، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں کہ جب عام شہری گیس کی کمی سے متاثر ہورہا ہے اس کے باوجود حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لے کھاد کے پلانٹس کو گیس کی فراہمی جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے یوریا کی پیداوار میں گزشتہ برس کے مقابلے ساڑھے 3 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا، جو ہم کرسکتے تھے ہم نے کیا لیکن کچھ ڈیلر ہیں جو ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں ان کا تدارک ہونا چاہیے اور ہم کریں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر پاکستان میں یوریا نہ پیدا ہوتی اور ہم درآمد کرتے تو اندازہ ہوتا کہ اس کی قیمت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں اگر یوریا مہنگی بھی فروخت ہورہی ہے تو وہ بین الاقوامی قیمت کے مقابلے سستی ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر یوریا کی قیمت 8 سے 9 ہزار روپے فی بوری تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان میں اگر بلیک میں بھی فروخت ہورہی ہے تو 2500 میں مل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں کہ جب عام شہری گیس کی کمی سے متاثر ہورہا ہے اس کے باوجود حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لے کھاد کے پلانٹس کو گیس کی فراہمی جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے یوریا کی پیداوار میں گزشتہ برس کے مقابلے ساڑھے 3 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا، جو ہم کرسکتے تھے ہم نے کیا لیکن کچھ ڈیلر ہیں جو ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں ان کا تدارک ہونا چاہیے اور ہم کریں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر پاکستان میں یوریا نہ پیدا ہوتی اور ہم درآمد کرتے تو اندازہ ہوتا کہ اس کی قیمت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں اگر یوریا مہنگی بھی فروخت ہورہی ہے تو وہ بین الاقوامی قیمت کے مقابلے سستی ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر یوریا کی قیمت 8 سے 9 ہزار روپے فی بوری تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان میں اگر بلیک میں بھی فروخت ہورہی ہے تو 2500 میں مل رہی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اس کو بالکل جائز نہیں کہہ رہا لیکن ایک پارٹی احتجاج کی بات کررہی ہے تو جب ہم یہ بایں کرتے ہیں تو اس کے لیے پاکستان کے عوام اور کسان کو ایک تقابلی جائزہ اپنے سامنے رکھ کر رائے قائم کرنی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ اپوزیشن ضروری تنقید کرے لیکن جہاں مثبت بات ہو وہاں اس کا اعتراف بھی کرے، جب ہم اور دنیا کہتی ہے ریکارڈ برآمدات ہوئی تو اس کا ذکر نہیں کرتے، ریکارڈ ترسیلات زر کا ذکر نہیں کریں گے، ٹیکس کلیکشن میں بہتری کا ذکر نہیں کرتے اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تجزیے سیاسی ہیں حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہمارا چیلنج اپوزیشن نہیں ہے، مہنگائی ہمارا چیلنج ہے، یہ سو جتن کرلیں ہمیں کوئی گبھراہٹ نہیں، ہم سیاسی انداز میں ان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن مہنگائی چیلنج ہے۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کے اضافے کو قرار دیا اور دنیا کے دیگر ممالک کی معیشت میں آنے والے سکڑاؤ کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس کے ذمہ دار بھی ہم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اتنا حوصلہ ہماری اپوزیشن میں نہیں کہ اگر ہماری قرض سے جی ڈی پی کی شرح 83.3 فیصد سے گر کر 71.3 فیصد ہوگئی ہے تو اس کا ذکر نہیں کریں گے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں کی فی کس آمدن 1457 ڈالر سے بڑھ کر 1666ڈالر ہوگئی ہے لیکن اس کا ذکر کرنے پر سانپ سونگھ جاتا ہے، سناٹا چھا جاتا ہے۔ایوان میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ وزیر خارجہ کے لیے ایک توجہ دلاؤ نوٹس تھا لیکن ان میں یہ جرات نہیں کہ ہزاروں پاکستانی طلبہ و طالبات کے مسئلے کا یہاں بیٹھ کر جواب دیتے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ اپنے کام کے سوا دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑا رہے ہیں اسی لیے شاید پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے اور آج شاید انہوں نے پی ٹی آئی کی متبادل قیادت کی حیثیت سے اپنی رونمائی کی ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ جب انہیں نظر آرہا ہے کہ ان کے لیڈر جارہے ہیں تو وہ شاید کسی کو انٹرویو دینا چاہ رہے تھے کہ عمران خان کے علاوہ میں بھی ہوں، مجھ پر توجہ کرلیں میں بھی وزارت عظمیٰ کا امیدوار بن سکتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی ملک کا وزیر خارجہ اتنا غیر سنجیدہ ہوگا تو اس کی خارجہ پالیسی کا کیا حال ہوگا۔احسن اقبال نے کہا کہ 5.37 فیصد شرح نمو ری بیسنگ کے نتیجے میں ہوئی ہے، وزیر خارجہ نے یہ کہا کہ پاکستان میں کھاد کا مسئلہ پتا نہیں کیوں ہوگیا جبکہ کھاد کی پیداوار بڑھی ہے، انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ ان کی نگرانی میں ملک سے کھاد اسمگل ہوئی ہے جس کے نتیجے میں آج زمیندار کو ڈی اے پی ساڑھے 9 ہزار روپے مل رہی ہے جو ہمارے دور میں 2400 روپے کی دستیاب تھی۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پنجاب اور وفاقی کی حکومت ان کی ہے لیکن یہ بے بس نظر آتے ہیں ذخیرہ اندوزی کے خلاف کیا کوئی مریخ سے آکر کارروائی کرے گا۔وزیر خارجہ کی جانب سے اس شکوے کہ اپوزیشن حکومت کی اچھی چیزوں کا اعتراف نہیں کرتی، کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں کی بات کریں گے جو اس مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے تنگ آچکے ہیں، آپ کے اعداد و شمار آپ کے دن تو پھر چکے ہیں لیکن غریب غریب تر ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس دن ملک کا عام مزدور، محنت کش کہے گا کہ زندگی میں آسودگی آئی ہے اس دن میں ان اعداد و شمار کو تسلیم کروں گا۔احسن اقبال نے کہا کہ معیشت کو روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود ساڑھے 13 فیصد کرنے کی دو زہریلی گولیاں دی گئیں جس سے مہنگائی کا سونامی آیا اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا، پاکستان کو قرضوں کی جال میں جکڑ دیا ہے، میں ٹی وی پر مناظرے کا چیلنج کرتا ہوں کہ آئیں اور بحث کریں کہ آپ نے معیشت ٹھیک کی ہے یا تباہ کی ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات