بھارت کا لو جہاد اور محبت کی المناک داستانیں

DW ڈی ڈبلیو اتوار 23 جنوری 2022 17:20

بھارت کا لو جہاد اور محبت کی المناک داستانیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جنوری 2022ء) رات کے کسی پہر ارباز آفتاب ملا کے موبائل سے ان کے دوست پریشواڑی کو کال موصول ہوتی ہے لیکن نیم خوابی میں بھی انہیں اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ یہ ارباز کی آواز نہیں ہے۔ دوسری جانب بوجھل سانسوں میں ڈوبی ایک خوفزدہ سی آواز آتی ہے۔ ''یہ جس کا فون ہے اس کی لاش ریل کی پٹڑی پر پڑی ہے آکر اٹھا لیں۔

‘‘ پریشواڑی پھرتی سے اٹھتا اور بتائی گئی جگہ پر پہنچتا ہے۔ ٹارچ کی روشنی میں چلتے چلتے وہ کچھ ہی دور جاتا ہے کہ اسے اوندھے منہ پڑا تن سے جدا ، کٹا ہوا ایک سرملتا ہے جبکہ جسم دور پڑا ہے جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوتے ہیں۔ وہ آفتاب ہی تھا۔

جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ آفتاب کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک ہندو لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا اور متعدد دھمکیاں ملنے کے باوجود وہ اپنی محبت قربان کرنے پر رضامند نہیں تھا۔

(جاری ہے)

بھارت میں بین المذاہب شادیوں کے نتیجے میں بھیانک قتل اور تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور محبتوں کے خلاف پنپتی اس نفرت کی کوئی حد نظر نہیں آتی ہے۔

پاکستان جاؤ یا قبرستان جاؤ

بھارت میں 'لو جہاد‘ کا مسئلہ دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے۔شری رام سینا کے کارکن کھلے عام بھارتی مسلمانوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایسی ہزاروں ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں جن میں ''پاکستان جاؤ یا قبرستان جاؤ‘‘ جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں، بین المذاہب شادیوں کو ہمیشہ ایک سماجی بدنامی کی وجہ سمجھا جاتا رہا ہے اور تمام ہندوعقائد کے ماننے والوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایسا مانا جاتا ہے کہ ان معاملات میں اکثر خواتین مذہبی تبدیلی پر مجبور ہوتی ہیں۔

بھارت میں جب سے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) برسراقتدار آئی ہے، اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر ہندو خواتین اور مسلم مردوں کے درمیان لو جہاد کے نام سے مشہور ایک خطرناک سیاسی فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔

لو جہاد، مسلمان خواتین کے اعداد و شمار کہاں ہیں؟

ہندوستان کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق، لو جہاد کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور یہ فقط ایک نظریہ ہے۔

نہ ہی اس کی عکاسی ہندوستان کی آبادی کے اعداد و شمار میں ہوتی ہے، جہاں ہندو تقریباً 80 فیصد اور مسلمان 14 فیصد ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو کی جانب سے یہ سوال سنجے کپور سے کیا گیا جو کہ ایک سینیئر صحافی ہیں اور ایسے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں کہ وہ اس انتہاپسندی کا اختتام کہاں دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کوئی مثبت رائے نہیں رکھتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گائے کے گوشت سے شروع ہونے والی یہ داستان مستقبل قریب میں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔

سنجے کا کہنا تھا،''جب تک یہ حکومت رہے گی یہ نام نہاد جہاد چلتا رہے گا۔ یہ ایک سٹیریو ٹائپ سیاسی مسئلہ ہے۔‘‘

اتر پردیش میں جہاں لو جہاد کے حالیہ بنائے گئے قانون کے مطابق سب سے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں، ہندو خواتین کی رضامندی ہونے کے باوجود شادی کے فیصلے پر مسلمان مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

نومبر 2020 ء اور اگست 2021 ء کے درمیان نئے انسداد تبدیلی مذہب کے قانون کے تحت گرفتار کیے گئے 208 افراد میں سے سبھی مسلمان تھے۔ ابھی تک کسی کو سزا نہیں ملی لیکن زیادہ تر جیل میں ہیں۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ ایسی بہت سی مسلمان خواتین بھی ہیں جو ہندو مردوں سے شادیاں کر کے مذہب تبدیل کر لیتی ہیں لیکن ان کے اعداد و شمار کو جان بوجھ کر عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔

کیا یہ نسل کشی ہے؟

اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے ہندوستان میں موجود انسانی حقوق کی علمبردار شبنم حاشمی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے تاکہ ہندو انتہا پسندوں کا ووٹ ایک جگہ اکھٹا رہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پدر شاہی کی سب سے بدترین مثال بھی ہے جہاں عورت سے اس کے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے حالانکہ ملک میں اسپیشل میرج ایکٹ بھی موجود ہے لیکن اس شدت پسندانہ رویے کے سامنے سب بے کار ہوتا نظر آتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ہندوستان میں مسلمان لڑکیاں بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے شادیاں کرتی ہوں گی ان کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟ انہوں نے کہا،''میرا اپنا بہنوئی سکھ ہے اور میری بھانجی نے ایک جین مرد سے شادی کی ہے لیکن بات صرف ایک مذہب کو نشانہ بنانے کی ہے۔ یہ جینوسائیڈ کی تیاری ہے۔‘‘

آفتاب کوقتل سے پہلے کئی بار شری رام سینا کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں اور ان کی والدہ کے مطابق قتل سے کچھ دن پہلے انہیں بلا کرتنبیہ کی گئی تھی کہ وہ ہندو لڑکی سے تعلق ختم کر دے۔

آفتاب کی والدہ ناظمہ شیخ نے مختلف خبر رساں اداروں کو دیے گئے اپنے بیانات میں کہا کہ ان کے بیٹے کو محبت کی اتنی بڑی سزا نہیں ملنی چاہیے تھی لیکن اب انہیں ان سب لوگوں کو پھانسی کی سزا دلوانی ہے جنہوں نے ان کے بیٹے کا سر تن سے جدا کر کے بے دردی سے اُسے قتل کر دیا۔