Live Updates

وزیر اعظم عمران خان کا بیان بحث کا محور

DW ڈی ڈبلیو پیر 24 جنوری 2022 20:20

وزیر اعظم عمران خان کا بیان بحث کا محور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جنوری 2022ء) پاکستانی سربراہ حکومت نے یہ بیان عوام سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے دیا تھا، جس پر کئی حلقوں میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ چند حلقوں کی رائے میں وزیر اعظم کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے خطرہ ہے اور چند دیگر کے خیال میں ان کا یہ بیان انتہائی نامناسب ہے کیونکہ وہ ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر فائز ہیں، جہاں اس طرح کی دھمکیاں دنیا کسی منتخب سیاسی شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔

حزب اختلاف کا ردعمل

وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر مریم نواز شریف اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے فوراﹰ اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نے عمران خان کو اقتدار چھوڑنے تک کا مشورہ دے دیا۔

(جاری ہے)

پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے آج پیر کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ یہ جماعت عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ہر قانونی، عوامی اور سیاسی طریقہ استعمال کرے گی۔

فواد چوہدری اپنے بیان پر ایک بار پھر تنقید کی زد میں

سابق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی رخصتی قریب ہے اور ان کا یہ بیان خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور عمران خان کو کسی طرح کا خوف نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ موقف ملکی اپوزیشن کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اگر اس منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کی گی، تو اس کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔

’زبان بالکل مناسب تھی‘

پی ٹی آئی کے رہنما جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف حکومت کو گرانے کی دھمکی دیتی ہے اور اگر ایسی دھمکیوں کا جواب نہ دیا جائے تو یہ کمزوری سمجھی جاتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں وزیر اعظم نے بالکل مناسب انداز میں بات کی۔ اگر کوئی دھمکیوں کی زبان میں ہم کو یہ کہے گا کہ ہماری منتخب حکومت کو گرا دیا جائے گا یا اسے ہٹا دیا جائے گا، تو ایسی دھمکیوں کا جواب بھی دھمکی آمیز لہجے ہی میں دیا جائے گا۔ پاکستانی سیاست میں اگر ایسا نہ کیا جائے، تو اسے کمزوری تصور کیا جاتا ہے اور سیاسی دنگل میں یقیناﹰ کوئی پارٹی نہیں چاہے گی کہ اسے کمزور سمجھا جائے۔

اس لیے کہ عوام کمزوروں کے ساتھ نہیں جانا چاہتے۔ عوام طاقت ورکے ساتھ جانا چاہتے ہیں، جو اپنے مخالف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مقابلہ کر سکے۔‘‘

اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات

جمشید اقبال چیمہ نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات خراب ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں ہمارے تعلقات کی نوعیت بہت اچھی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے، اس کو بجٹ میں پیسہ چاہیے ہوتا ہے اور اگر ملک میں منی لانڈرنگ ہو گی، پیسہ ملک سے باہر جائے گا، تو اس سے نہ صرف پاکستان کو نقصان ہو گا بلکہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی۔ اب پیسہ باہر جانے کے بجائے ملک میں آ رہا ہے، معیشت کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور اس میں بہتری کے مزید امکانات ہیں۔ تو ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ حکومت سے کیوں ناراض ہو گی؟‘‘

پاکستان میں پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی جاری کر دی گئی

کیا بیان اسٹیبلشمنٹ کو دیا گیا اشارہ ہے؟

چند حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی مراد واقعی حزب اختلاف سے تھی اور ان کی تنبیہ بھی اپوزیشن جماعتوں ہی کے لیے تھی۔

دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں اور یہ وارننگ کسی بھی صورت اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہیں ہو سکتی۔

آئی ایس آئی چیف کی تقرری: یہی کرنا تھا تو تاخیر کیوں؟

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین خراب تعلقات کا تاثر کچھ حلقوں کی طرف سے اس وقت پھیلایا گیا، جب جنرل فیض کو کور کمانڈر کے طور پر ٹرانسفر کیا گیا۔

پاکستانی فوج کے رولز میں یہ ہے کہ اگر کسی کو چیف آف دی آرمی سٹاف بننا ہے، تو اس کے لیے کسی کور کی کمانڈ کرنا بہت ضروری ہے۔ غالباﹰ عمران خان جنرل فیض کو جولائی تک رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کو بتایا گیا کہ رولز کے مطابق انہیں کورکمانڈر بنانا ضروری تھا اور یوں یہ معاملہ حل ہو گیا تھا۔ اب اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی حکومت کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں اور دونوں کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔

‘‘

کوئی نئی توسیع نہیں مانگی گئی

میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اپنے عہدے کی مدت میں ممکنہ طور پر ایک اور توسیع کے خواہش مند ہیں اور اس وجہ سے بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات مبینہ طور پر خراب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ان (جنرل باجوہ) کی طرف سے ایسی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اب ان کی ریٹائرمنٹ میں سات آٹھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ میری رائے میں تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں کسی بھی مسئلے پر کوئی تلخی نہیں۔‘‘

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات