نہ ڈائٹنگ نا ورزش اور پھر بھی وزن کم۔ کیسے؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 25 جنوری 2022 19:00

نہ ڈائٹنگ نا ورزش اور پھر بھی وزن کم۔ کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2022ء) جمہوریہ کروشیا کے دو ڈاکٹر ایک ایسے انوکھے طریقہ سے موٹاپے کا علاج کر رہے ہیں جس کا تعلق انسانوں کے کثیرالجہتی رویوں سے ہے۔ موٹاپا کم کرنے کے لیے نہ تو سخت ڈائٹنگ نہ ہی اسپورٹس کی ضرورت ہے بلکہ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن گھٹانے کے لیے سب سے زیادہ موثر ذہنی توازن اور قوت برداشت پر کنٹرول کرنا ہے۔

مشکل عمل

ہر وہ شخص جو اپنا وزن کم کرنا چاہتا ہے وہی جانتا ہے کہ جسم پر چڑھا اضافی وزن اتارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ تھکا دینے والی ورزشیں، کھیل اور سب سے بڑھ کر پرہیز۔۔۔ یہ سب کچھ آسان نہیں ہوتا۔ اکثر یہ تدابیر قلیل المدتی کامیابی تو ظاہر کرتی ہیں لیکن ان میں پائیداری نہیں ہوتی۔ ایک آدھ کلو وزن کم کر لینا بہت مشکل ہوتا ہے تاہم اس میں کامیابی اکثر بس تھوڑی ہی دیر کی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

خود پر جبر کر کے ، بھوکے رہ کر اور ورزشیں کر کے جو تھوڑا بہت وزن کم ہوتا ہے اُسے واپس آنے میں بالکل وقت نہیں لگتا۔ شدید مٹاپا یا زیادہ وزن معیار زندگی کو بھی خراب کر دیتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ متوقع عمر کو بھی کم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

کورونا کی وبا کے دور میں جرمن شہریوں کا وزن بڑھ گیا

نیا اور انوکھا طریقہ

جمہوریہ کروشیا کے چوتھے بڑے شہر اوسیژک سے تعلق رکھنے والے دو ڈاکٹرز ماریو کورکووچ اور ڈراسن گُرژانسکی اس ضمن میں بڑی مثبت اور کامیاب پیش رفت کا ذکر کرتے ہیں۔

ان دونوں کے انوکھے طریقہ علاج سے اب تک موٹاپے کے شکار لگ بھگ 130 افراد کا علاج کیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں موٹاپے کو ایک پیچدہ مگر قابل علاج بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ اپنے اس نئے طریقہ علاج کی کامیابی پر انہیں خود حیرت تھی۔ وہ کہتے ہیں،''موٹاپے کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں۔ انسانی جسم میں وزن کو مستقل برقرار رکھنے کا ایک نظام موجود ہوتا ہے۔

اسے ہومیو اسٹیٹک نظام کہا جاتا ہے۔ اس کا انحصار انسانوں کے نظام ہاضمہ اور دماغ میں موجود اُس مرکز کے مابین مواصلات پر ہوتا ہے جو بھوک، سیر ہونے اور خوشگوار حد تک پیٹ کے بھر جانے کے احساس کو محسوس کرنے کا اہم کام انجام دیتا ہے۔‘‘

کیٹو ڈائیٹ: جلد وزن کم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے

غذائی عادات

زیادہ تر صحت مند افراد کھانا اُس وقت کھاتے ہیں جب انہیں بھوک لگتی ہے اور عام طور سے وہ وہی کھاتے ہیں جسے کھانے کا ان کا دل چاہے۔

یہ سلسلہ بغیر وزن بڑھے چلتا رہتا ہے۔ جمہوریہ کروشیا سے تعلق رکھنے والے ان ڈاکٹروں کا تاہم کہنا ہے،''آج کے طرز زندگی میں غیر صحت بخش غذا کا کثرت سے استعمال نظام ہاضمہ اور دماغ کے درمیان رابطے کے سلسلے کو ناقص بنا رہا ہے اس میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ڈراسن گُرژانسکی کا کہنا ہے کہ انسانی جسم اور دماغ کے مواصلاتی نظام میں دوبارہ توازن پیدا کرنا ''پوسٹ تھیراپی‘‘ کا ہدف ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا،''آٹوجینک ٹریننگ یا، میڈیٹیشن یا مراقبے، نظام انہضام کی بحالی اور کبھی کبھار روزہ رکھنے کے ذریعے ہم اصل میں نظام ہاضمہ اور ہومیو اسٹیٹک دونوں نظاموں کو دوبارہ تشکیل دیتے ہیں اور اس طرح یہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور قریبی روابط سے کام کرتے ہیں۔‘‘

ان ڈاکٹروں کے طریقہ علاج کا مرکزی خیال یہ ہے کہ موٹاپے کو دور کرنے اور وزن کم کرنے کے لیے انسانی جسم میں موجود نظاموں کو بحال کیا جائے تاکہ یہ اپنا معمول کا کام انجام دے سکیں۔

میٹھے مشروبات کینسر کا باعث بن سکتے ہیں، نئی ریسرچ

موٹاپے کا غلط تصّور

کروشیا کے دونوں ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ وزن کم کرنے اور موٹاپے کے علاج کے بارے میں بہت سے فضول تصورات پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ کم کھانا، زیادہ جسمانی حرکت۔ یعنی یہ سوچنا کہ کوئی شخص سخت ڈائٹنگ اور ورزش کی مدد سے وزن کم کر لے گا، غلط خیال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسپورٹس اور ورزش وغیرہ فائدہ مند اور صحت افزا سرگرمیاں ہیں لیکن کوئی بھی مریض ان دونوں سرگرمیوں کی انتہا تک پہنچ کر اپنی بیماری دور نہیں کر سکتا۔

کھانے میں کیلوریز کو گنتے رہنا اور سخت ڈائٹنگ کا مشورہ ڈاکٹر نہیں دیتے بلکہ سب سے زیادہ ضروری خود کی ایسی تربیت کرنا ہے کہ انسان آہستہ آہستہ بھوک سے دور ہوتا جائے۔ یعنی اس تھیراپی کے ذریعے بھوک کے محرک کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دماغ کی بھی ساتھ ہی ساتھی تربیت ہوتی رہتی ہے کہ وہ بھوک کے احساس کو اُس وقت تک متحرک نہیں کرے جب تک جسم کو واقعی غذا کی ضرورت نہ ہو۔

پھلیاں زیادہ، گوشت کم کھائیں!

اپنے جسم کی آواز سننے کی مشق کرنا

ان دونوں ڈاکٹرز نے موٹاپے اور وزن کم کرنے کا جو پروگرام تیار کیا ہے اُس میں چھ ماہ تک ہفتہ وار کورس شامل ہے۔ اس دوران مریضوں کو تقریباً 15 تا 20 کلو وزن کم کرنے کا ہدف دیا جاتا ہے لیکن چند افراد تو اسی عرصے میں 40 کلو گرام تک وزن کم کر لیتے ہیں۔ اس پورے کورس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مریض شعوری طور پر معدے اور دماغ کے درمیان رابطے میں توازن پیدا کرے۔

ان دونوں ڈاکٹروں نے ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے یا غذا کی ضرورت محسوس کرنے کو ایک نشہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،''غیر ضروری غذا کا استعمال یا کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا بھی ایک نشہ یا لت ہے۔‘‘ ڈاکٹر گُرژانسکی کہتے ہیں،''ہمارے طریقہ علاج پر عمل کرنے والے اس لت سے چھٹکارا پانا سیکھ لیتے ہیں۔ کھاتے رہنے کی لت پیچیدہ ہے مگر اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہے۔ سب سے سنگین مسئلہ میٹھے کی لت سے چھٹکارا پانا ہے۔‘‘

ان ماہرین کے مطابق چینی یا میٹھے کی لت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہ شراب نوشی کی لت۔

ووک تیسیا/ ک م/ ع ا