ٴ 2031ء سے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن کے فنڈ کم ہونا شروع ہو جائیں گی: شکیل احمد منگنیجو

ٹ* 2037ء تک مکمل طورپر یہ ختم ہو جائیں گے جن کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنے کیلئے اس رفاعی سکیم کے تینوں سٹیک ہولڈرز آجر، اجیر اور حکومت کو مل کر فوری اقدامات اٹھانا ہوں گی: چیئرمین ای او بی آئی

بدھ 26 جنوری 2022 20:00

Z(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 جنوری2022ء) 2031ء سے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن کے فنڈ کم ہونا شروع ہو جائیں گے جبکہ 2037ء تک مکمل طورپر یہ ختم ہو جائیں گے جن کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنے کیلئے اس رفاعی سکیم کے تینوں سٹیک ہولڈرز آجر، اجیر اور حکومت کو مل کر فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ یہ بات ای او بی آئی کے چیئرمین شکیل احمد منگنیجو نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ سکیم شروع ہوئی ہے اس میں مالکان کی کنٹری بیوشن پانچ جبکہ ورکر کی ایک فیصد ہے۔ پہلے حکومت بھی اس میں حصہ ڈالتی تھی مگر 1990ء کے وسط سے اس نے اپنا حصہ ڈالنا بند کر دیا ۔ اس طرح پہلے یہ کنٹری بیوشن 8ہزار روپے کی کم از کم تنخواہ کے حساب سے وصول کی جاتی تھی جبکہ اس وقت یہ سندھ میں 25اور باقی صوبوں میں 20ہزار ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ایمپلائرز ایسوسی ایشن نے تیرہ ہزار کے حساب سے کنٹری بیوشن دینے سے اتفاق کیا مگر بہت سے مالکان کورٹ میں چلے گئے اور وہ اًب بھی 8ہزار روپے کے حساب سے کنٹری بیوشن دے رہے ہیں۔

انہوں نے ملک بھر میں یکساں کنٹری بیوشن کی شرح پر زور دیا اور کہا کہ اس سلسلہ میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح حکومت کو بھی اس فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ بڑھاپے کی پنشن کی اس سہولت کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جا سکے۔ انہوں نے قانونی موشگافیوں کے حوالے سے کہا کہ جو مالکان ابھی کم شرح سے کنٹری بیوشن دے رہے ہیں انہیں بظاہر اس میں وقتی فائدہ نظر آرہا ہے مگر بالآخر انہیں نئی شرح سے ہی کنٹری بیوشن دینا ہو گی اور بیک وقت کئی سالوں کی بڑھی ہوئی کنٹری بیوشن دینے میں انھیں مشکل ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ ای او بی آئی کا نیا قانون بن رہا ہے جس میں پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کی طرح مالکان کو سیلف اسسمنٹ کی سہولت دی جائے گی جبکہ بیرون ملک کام کرنے والے ورکر بھی کنٹری بیوشن ادا کر کے اس سکیم کا حصہ بن سکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاور لومز ، سائزنگ اور فونڈری جیسے چھوٹے اداروں کے مالکان کو آڈٹ میں ریلیف دینے کو تیار ہیں جبکہ ان سے کئی سال پرانا پی آر ۔

2فارم بھی طلب نہیں کیا جائے گا۔ مزید برآں پنجاب میں ای او بی آئی ۔ لیبر اور سوشل سیکورٹی کے افسران مل کر سال میں صرف ایک دفعہ ہی انسپکشن کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ملکی سطح پر ای او بی آئی کو 31ارب کی کنٹری بیوشن مل رہی ہے جبکہ 40ارب روپے کی پنشن دی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ای او بی آئی اس وقت 6لاکھ 97ہزار افراد کو پنشن دے رہا ہے جبکہ 9لاکھ کیس پائپ لائن میں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ای او بی آئی کے مجموعی اثاثے 500ارب کے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کی حکومتی سیکورٹیز میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ تاہم نئے قوانین کے مطابق وہ نیشنل سیونگز میں مزید سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ا س سلسلہ میں اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اپنا کیس لے کر گئے ہیں تاکہ اُن کو نیشنل سیونگز میں سرمایہ کاری کی خصوصی اجازت مل جائے کیونکہ یہ غریب ورکنگ کلاس کا پیسہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔

فیصل آباد ریجن کے حوالے سے شکیل احمد منگنیجو نے بتایا کہ یہاں سے 1.9ارب کی کنٹری بیوشن مل رہی ہے جبکہ 2.5ارب روپے کی پنشن دی جارہی ہے جس میں توازن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے چیمبر کو ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل کرنے کے بارے میں کہا کہ ملک میں بہت سے چیمبر ہیں لیکن اس بورڈ میں آجر اور اجیر کی نمائندگی میں توازن رکھنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں تجاویز دیں تاکہ اس پر مزید کام کیا جا سکے۔اس سے قبل فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر عاطف منیر شیخ نے کہا کہ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا اور اہم صنعتی، تجارتی اور کاروباری مرکز ہے۔ ٹیکسٹائل اس شہر کی شناخت ہے جبکہ ایم تھری اور علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام سے یہ ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز بن جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں فیصل آباد کا حصہ 46فیصد جبکہ مجموعی برآمدات میں اس کا حصہ 22فیصد ہے۔ اسی طرح کپڑے کی ملکی ضروریات کا 80فیصد حصہ بھی یہ شہر پورا کر رہا ہے۔ فیصل آباد چیمبر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس کے آٹھ ہزار ممبر ہیں جو ایسوسی ایٹ اور کارپوریٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح 113ٹریڈ ز سے متعلقہ افراد چیمبر سے وابستہ ہیں۔

فیصل آباد چیمبر کے ای او بی آئی سمیت مختلف حکومتی اداروں سے بہترین تعلقات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سیکٹر کے بارے میں قائمہ کمیٹی ہے جو اس سیکٹر سے وابستہ افراد کے مسائل کے علاوہ اُن کے حل کیلئے قابل عمل تجاویز بھی پیش کرتی ہے۔ انہوں نے محنت کشوں کو قومی سرمایہ قرار دیا اور کہا کہ مالکان اپنے ملازمین کو صرف ای او بی آئی کے رحم و کرم پر ہی چھوڑتے ہیں بلکہ اُن کی صحت اور بچوںکیلئے انفرادی طور پر بھاری رقم خرچ کررہے ہیں ۔

ای او بی آئی کے تین مختلف ریٹوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ممبروں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ قانونی چارہ جوئی کی بجائے یکساں کنٹری بیوشن کیلئے براہ راست ای او بی آئی سے رابطہ رکھیں ۔ انہوں نے ا س سلسلہ میں مشاورتی کمیٹیوں کے قیام پر بھی زور دیا تاکہ مقامی نوعیت کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جا سکے ۔ انہوں نے مزدوروں کی پنشن میں بھی اضافے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ساڑھے آٹھ ہزار میں گزارہ ممکن نہیں۔

اس سے قبل ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار احمد گریوال نے بھی مختصر خطاب کیا اور ای او بی آئی کے بارے میں بتایا۔اس موقع پر سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی جس میں حاجی طالب حسین رانا، شکیل احمد انصاری، اشفاق احمد ، ثاقب مجید سمیت دیگروں ممبروں نے بھی حصہ لیا۔آخر میں نائب صدر رانا فیاض احمد نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جبکہ صدر عاطف منیر شیخ نے شیخ اشفاق احمد اور ثاقب مجید کے ہمراہ ای او بی آئی کے چیئرمین شکیل احمد منگنیجو کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی اعزازی شیلڈ پیش کی۔ سائزنگ ایسوسی ایشن کے شکیل احمد انصاری اور حاجی طالب حسین رانا نے بھی ای او بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار احمد گریوال کو خصوصی شیلڈ دی