اب پتا چلا لوگو کہ حقیقت ہے کیا؟ احمد وقاص گورایہ

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 29 جنوری 2022 19:00

اب پتا چلا لوگو کہ حقیقت ہے کیا؟ احمد وقاص گورایہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جنوری 2022ء) انسانی حقوق کے سرگررم کارکن اور بلاگر احمد وقاص گورایہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ گزشتہ برس انتہائی مشکل ثابت ہوا لیکن آخر کار ان کو قتل کرنے کی سازش کا فاش ہونا اور 'کرائے کے قاتل‘ پر برطانیہ میں جرم ثابت ہونا ایک انتہائی اہم اور خوشگوار پیش رفت ثابت ہوئی ہے۔

گورایہ نے کہا کہ اس دوران انہیں نہ صرف ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا سامنا رہا بلکہ ان کی فیملی کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دوران انہوں نے کئی مرتبہ گھر بدلا اور ان کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ تاہم اب وہ مطمئن ہیں کیونکہ کم ازکم یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ وہ شہرت یا توجہ کی خاطر اپنے خدشات کا اظہار نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ حقیقی خطرہ ہے۔

(جاری ہے)

نیدرلینڈز میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے احمد وقاص گورایہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ اب برطانوی اور مغربی حکام کو پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہیے اور مزید حقائق سامنے لانا چاہییں۔

برطانیہ کی ایک عدالت نے جمعے کے دن ایک پاکستانی نژاد برطانوی شخص کو احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش میں مجرم قرار دے دیا۔

اکتیس سالہ گوہر۔ کے پر الزام ثابت ہوا کہ اس نے ‘کرائے کے قاتل‘ کے طور پر گورایہ کو قتل کرنے کی حامی بھری تھی اور اس مقصد کی خاطر وہ نیدرلینڈز بھی گیا، تاہم وہ اپنے اس مشن میں ناکام رہا اور لندن واپسی کے دوران ٹرین سے گرفتار کر لیا گیا۔

مغربی ممالک کو دباؤ بڑھانا ہو گا

احمد وقاص گواریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برطانیہ میں اس مقدمے کی کارروائی اور نتیجے سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے اور حکام مغربی ممالک میں مقیم ایسے لوگوں کا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ان سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور آزادی رائے و صحافت کا علم تھامے ہوئے ہیں۔

گورایہ کے مطابق اب ایسے تمام شکوک ختم ہو گئے ہیں کہ اپنی جان بچا کر پاکستان سے فرار ہونے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کو مغربی ممالک میں بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول برطانوی عدالت کا فیصلہ موجودہ صورتحال میں بہتری کی امید کی ایک کرن ثابت ہو گا۔

احمد وقاص گورایہ کا اصرار ہے کہ مغربی ممالک کو اب حکومت پاکستان پر دباؤ مزید بڑھانا چاہیے اور اس کیس میں ایسے پہلوؤں کو عیاں کیا جانا چاہیے، جو ابھی تک واضح نہیں ہوئے۔

مثال کے طور پر گوہر کو رقوم دینے والے کون تھےِ؟ بظاہر گوہر کو اس واردات کے لیے رضا مند کرنے والا پاکستان میں ہی تھا۔

ایک سوال کے جواب میں گورایہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برطانوی عدالت کا فیصلہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایسے تمام ممالک کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ جبر پر مبنی ریاستیں، مغربی ممالک میں جلا وطنی اختیار کرنے والے اپنے شہریوں کو نہ تو سیاسی تعاقب کا نشانہ بنا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں ہراساں کر کے ان کی یا دیگر کارکنوں کی آوازیں خاموش کرا سکتی ہیں۔

’چوبیس دن کی اذیت‘

حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے لاہور کے رہائشی احمد وقاص گورایہ چار فروری سن دو ہزار سترہ کو اچانک لاپتہ ہو گئے تھے۔ گورایہ کے مطابق ان کے اغوا کاروں نے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ عالمی اور ملکی سطح پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے چند ہفتوں بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔

انتیس فروری سن دو ہزار سترہ کو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے گورایہ کے بقول ان کے اس اغوا کے پیچھے بھی ملکی خفیہ ایجنسیاں کارفرما تھیں، جو ان کی آواز خاموش کرنا چاہتی تھیں۔ احمد وقاص چوبیس دن تک لاہتہ رہے تھے۔

پاکستان کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اپنے سیاسی خیالات کا برملا اظہار کرنے والے گورایہ کا انداز بیان پاکستان کے مروجہ اخلاقی اور معاشرتی پیمانوں کے معیارات پر پورا نہیں اترتا، جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔

گورایہ کا البتہ کہنا ہے کہ وہ ایسی معاشرتی و سماجی پابندیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، جو بنیادی انسانی حقوق کی روح کے منافی ہیں اور جس کی وجہ سے آزادی رائے اور فکر کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جبری گمشدگیوں کا معاملہ حساس موضوع

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا موضوع ہے۔ اگرچہ حکومت اور خفیہ ایجنسیاں ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہیں لیکن انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق ایسے زیادہ تر کیسوں میں اختلاف رائے رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف آواز بلند کرنے والے دیگر کارکن بھی خوفزدہ ہو کر خاموش ہو جائیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019ء کے اختتام تک پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے 2,141 ایسے کیسز عدالت میں زیر سماعت تھے ، جن کے فیصلوں کا انتظار تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ کیسز بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں رونما ہوتے ہیں جبکہ بہت سے ایسے کیسز بھی ہیں، جو خوف کے باعث لوگوں نے پولیس کے پاس درج ہی نہیں کرائے جاتے۔

پاکستان نے انسانی حقوق کے حوالے سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور ٹارچر کے حوالے سے کنوینشنز سمیت کئی دیگر کنوینشنز پر دستخط کیے ہیں لیکن جبری گمشدگی کے معاملے کو حکومتیں کئی برسوں سے ٹال رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ جبری گمشدگی کا معاملہ پاکستان میں سنگین ہوتا جا رہا ہے لیکن پھر بھی حکومت اس اہم کنوینشن پر دستخط نہیں کر رہی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 'اسٹیبلشمنٹ‘ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔