آئین کو چھیڑنے والا ملک کو توڑنے کا ذمے دار ہو گا، مولانا فضل الرحمٰن

اتحادی ملک وقوم کی بھلائی کے لئے آگے بڑھیں ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی ملک وقوم کو بچانے کے لئے اتحادیوں سے رابطے جاری ہیں جمہوری انداز میں عدم اعتماد لائیں گے اور جلد نالائق حکمران ایوانوں سے باہر ہوں گے ، جمشید دستی سے گفتگو

منگل 15 فروری 2022 21:19

لیہ /ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 فروری2022ء) جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ صدارتی نظام کی باتیں آئین کو منہدم کرنے کے مترادف ہیں اور آئین کو ختم کرنے یا چھیڑنے والا ملک کو توڑنے کا ذمے دار ہو گا، پارلیمانی طرز آئین کا اہم اور چوتھا عنصر ہے ،یہاں کوئی صدارتی طرز حکومت نہیں چلے گی، پاکستان کی موجودہ اسمبلی جعلی ہے اور اس میں جمہوریت کی روح نہیں ،بھارت کے روپے کی ڈالر کی قدر دیکھ لیں، بنگلہ دیش کے ٹکے کے مقابلے میں پاکستان کا روپیہ اب ٹکے کا بھی نہیں رہا، جنگ زدہ افغانستان کی کرنسی بھی پاکستان سے مضبوط ہے۔

لیہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہم کسی کو یہ نہیں بتاتے کہ آئین ہوتا کیا ہے، ایک آمر تو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دو چار ورقوں کی چیز ہے اسی پھینک دو تاہم آئین مملکت پاکستان کا وہ مقدس دستاویز ہے جسے پوری قوم اور تمام مسالک، مکاتب فکر و برادریوں کے درمیان میثاق ملی کی حیثیت دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ آئین نے اس قوم کو ایک قوم بنایا ہوا ہے اور اگر آئین بیچ سے نکل جائے تو اس ملک کی مملکت کے ساتھ کمٹمنٹ کی اساس ختم ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمانی طرز آئین کا اہم اور چوتھا عنصر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کوئی صدارتی طرز حکومت نہیں چلے گی، صدارتی طرز حکومت جبر کی علامت ہے، یہ ماضی اور تاریخ کے آئینے میں آمریت کی علامت ہے، آج پھر صدارتی نظام کی باتیں کی جا رہی ہیں، یہ آئین کو منہدم کرنے کی باتیں ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہاکہ آج کل کی جانے والی صدارتی نظام کی تجاویز دراصل پاکستان کو دولخت کرنے کا منصوبہ اس کے پیچھے نظر آ رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ آئین پر عملدرآمد نہ کرنا ہے، ہماری پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بھر دیے جاتے ہیں جان کا آئین و سنت سے کوئی لینا دینا نہیں اور ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی پاور پولیٹکس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان بھی اس کی بنیاد پر پاول پولیٹکس پر چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئین کے تحفظ کی بات کریں گے کیونکہ آئین کے تحفظ بات کرنا پاکستان کے تحفظ، ایک پاکستانی قوم کی بات کرنا ہے جس میں کوئی فرقہ واریت، قومی تعصبات اور لسانی نفرتوں کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اگر اس پر عمل نہیں ہو گا تو پھر آئے روز صوبوں کے اندر چھوٹی قومیتیں، چھوٹے صوبے اپنی محرومیوں کی بات کریں گے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ اگر ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے تو پھر وہاں بغاوت ہی اٹھتی ہے، میں پاکستان کے عوام اور قوم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آج اس ملک کے دیوالیہ پن کے ماحول میں بھی قوم کا ایک، ایک فرد پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ نے آج تک ایسے حالات نہیں دیکھے تھے، چیئرمین ایف بی آر کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے نہیں والا بلکہ دیوالیہ ہو چکا ہے، یہ میں نہیں بلکہ چیئرمین ایف بی آر کہہ رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی موجودہ اسمبلی جعلی ہے اور اس میں جمہوریت کی روح نہیں ہے، اس اسمبلی نے ایف اے ٹی ایف کے حکم پر اور ان کے دباؤ پر قانون سازی کی اور ملکی معیشت کو بیرونی اداروں کا غلام بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے سال میں ایک ہی بجٹ آتا تھا تاہم ہم نے آج پہلی ایسی نااہل اور نالائق حکومت دیکھی ہے جو سال میں چار مرتبہ بجٹ پیش کرتی ہے اور پاکستان سالانہ ترقی کی شرح صفر سے نیچے چلی گئی ہے۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ بھارت کے روپے کی ڈالر کی قدر دیکھ لیں، بنگلہ دیش کے ٹکے کے مقابلے میں پاکستان کا روپیہ اب ٹکے کا بھی نہیں رہا، جنگ زدہ افغانستان کی کرنسی بھی پاکستان سے مضبوط ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آئین کو کہیں سے بھی چھیڑا گیا تو ہم ان کو پاکستان کو توڑنے کا ذمیدار آج سے قرار دیتے ہیں، پھر حمودالرحمن کمیشن بنیں گے، ہم آج یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ آئین کو ختم کرنا یا چھیڑنا ملک کو توڑنے کا ذمے دار ہو گا۔وزیراعظم کی جانب سے دس بہترین وزراتوں کو تمغے دینے کے سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر دفاع ان کے نزدیک کسی تمغے کا مستحق نہیں ہے تو اس مطلب یہ ہوا کہ ہمارے فوج اور جنرل پر انہوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، فوجی جرنیلوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وزیراعظم ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کھیل شروع ہو گیا ہے اور ہم نے عدم اعتماد کی بات شروع کردی ہے، پاکستان ڈیموکریٹک نے جو فیصلہ کیا ہے ہم نے اس حوالے سے آگے بڑھنا ہے۔دریں اثناء جے یوآئی (ف) کے قائد و پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے ملتان میں اپنی رہائش گاہ پر عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید احمد دستی سے ملاقات کی اور اس موقع پر دونوں سینئر رہنماؤں کے درمیان ملکی وسیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے جمشید دستی کی عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کو بھی سراہا مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا دور حکومت ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے جس میں نمک سے لیکر تمام کھانے پینے والی اشیائ ہی نہیں بلکہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں تین سو گنا تک اضافہ ہو گیا ہے اور عوام فاقوں کی حالت میں گزر بسر کر رہے ہیں لیکن کٹھ پتلی حکمرانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے امن و امان کی صورتحال انتہائی ناقص ہے اور ملک انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہے اتحادیوں کو چاہیئے کہ وہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں ملک وقوم کی بھلائی کے لئے آگے بڑھیں ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی ہم جمہوری انداز میں موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائیں گے اور عوام کو نجات دلائیں گے انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی مضبوطی کے دعویداروں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں لیکن حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ عوام کرپٹ حکمرانوں کے خلاف باہر نکلیں۔