قائمہ کمیٹی برائے صنعت وپیداوار نے اسٹیل کی پیدواری لاگت اور قیمتوں کے سہی تعین کیلئے تمام تر تفصیلات کمیٹی کے اگلے اجلاس میں طلب کر لیں

منگل 29 مارچ 2022 23:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مارچ2022ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے اسٹیل کی پیدواری لاگت اور قیمتوں کے سہی تعین کیلئے تمام تر تفصیلات کمیٹی کے اگلے اجلاس میں طلب کر لیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس سینیٹر فیصل سبزواری کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کے حوالے سے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال پر وزارت اور پاکستان اسٹیل کے حکام نے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی۔

پاکستان اسٹیل کے مجموعی نقصانات اور واجبات میں 30 جون سے دسمبر 2020 تک 67.167 بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ حکام نے بتایا کہ پاکستان سٹیل مل نے 1985 میں اپنی پیداوار شروع کی۔

(جاری ہے)

مل نے 9.54 بلین روپے کا منافع کمایا،عالمی کساد بازاری اور دیگر عوامل کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز سال 2008 سے خسارے کا شکار ہونے لگی۔ سال 2008 میں کمپنی کو 26.45 بلین روپے کا ریکارڈ نقصان ہوا۔

سال 2008 سے 2014 تک پاکستان اسٹیل ملز کو تقریباً 59 ارب روپے بیل آؤٹ کے طور پر موصول ہوئے لیکن ادارے کو بحال نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان اسٹیل ملز کو 30 جون 2020 سے 31 دسمبر 2020 تک مجموعی طور پر 67.1 بلین روپے کے نقصان اور لائبلٹی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان اسٹیل کے حکام نے بتایا کہ ابھی تک تقریباً پانچ ہزار ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کر چکے ہیں اور وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈز ملنے کے بعد مزید ملازمین کے معاملات کو بھی دیکھا جائیگا۔

چیئرمین کمیٹی نے اس معاملے پر مزید بحث کو سینیٹر مشتاق احمد کی غیر حاضری کی وجہ سے اگلے میٹنگ تک موخر کر دیا۔اجلاس میں حکومت پاکستان کی طرف سے کان کنی کے شعبے کو باضابطہ کان کنی کی صنعت کا درجہ دینے کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی۔ وزارت کے حکام نے بتایا کہ کان کنی کا شعبہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق کی حد تک اسکو وزارت پیٹرولیم دیکھتی ہے،وزارت پیٹرولیم کو خط لکھ چکے ہیں،جونہی وزارت اسکی منظورِی دیتی ہے کان کنی کو صنعت کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائیگا،چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ صنعت کہ درجہ دینے کے کیا فوائد ہے۔

حکام نے بتایا کہ صنعت کہ درجہ ملنے سے بینکوں سے قرضہ جات اور دیگر ٹیکس کے معاملات میں بہت آسانی مل جاتی ہے۔ جس سے اس شعبے میں ترقی ممکن ہے۔بلوچستان میں پی آئی ڈی سی ریجنل آفس کے قیام کی درخواست کے بارے میں دائر کی گئی عوامی عرضداشت پر بحث کی گئی۔ سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا کہ کوئٹہ میں پی آئی ڈی سی کا علاقائی دفتر بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

وزارت کے سیکریٹری نے بتایا کہ پی آئی ڈی سی کی جانب سے بلوچستان میں کسی قسم کا کوئی منصوبہ زیر کار نہیں ہے اور اسلئے کوئٹہ میں دفتر قائم کرنے کی کوئی ضرورت نظر نہیں اتی۔سٹیل کی قیمتوں کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کی تجاویز کے مالیاتی اثرات کی تفصیلات پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں اسٹیل اور دیگر اشیاء کی سہی پیداواری لاگت کے تعین کے لئینجی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں گی تا کہ قیمتوں کہ سہی طریقے سی تعین کیا جا سکے۔

سینیٹر محمد عبدالقادر نے پوچھا کہ پاکستان میں اسٹیل کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے اور اگر یہی اسٹیل ہم باہر سے درآمد کریں تو اس سے قیمتوں پے کیا اثر پڑیگا۔ انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے حکام نے بتایا کہ اس حوالے سے کام جاری ہے اور متعلقہ صنعت کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات یکسو کیے جائینگے۔ کستان ایسوسیشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسرز کے نمائندوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباً چار سو کمپنیاں اسٹیل بنا رہی ہیں۔

اور پاکستان میں زیادہ تر اسٹیل درآمد شدہ سکریپ سے بنایا جاتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں جب سکریپ کی قیمت بڑھتی ہے تو پیدواری لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جسکی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سینیٹر سیف اللہ خان نیازی کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ عوام کو سستا اسٹیل میسر ہو، اسٹیل کی صنعت سے اور بھی سی صنعتیں جڑی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا اثر تمام پر پڑتا ہے، کمیٹی ممبران نے اسٹیل کی پیدواری لاگت اور قیمتوں کے سہی تعین کیلئے تمام تر تفصیلات کمیٹی کے اگلے اجلاس میں طلب کر لیں۔

کمیٹی ارکان نے گاڑیوں کی پیداوار اور اس حوالے سے درپیش مسائل پر بھی تفصیلی غور کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان میں تیار کی جانے والی گاڑیوں کے 65 فیصد پارٹس درآمد کیے جاتے ہیں۔ سینیٹر عبدالقادر نے استفسار کیا کہ گاڑیاں مہنگی ہونے کے باوجود پاکستان میں تیار کی جانے والی گاڑیاں معیاری نہیں ہوتیں۔ وزارت کے حکام نے بتایا کہ نئی پالیسی کے تحت کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے پارٹس کو لوکل سطح پر تیار کرنے کا انتظام کیا جائے۔

تاکہ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں بیرون ملک بھی برآمد کی جا سکیں۔ کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز، فلک ناز، سیف اللہ سرور خان نیازی، محمد عبدالقادر، فیصل سلیم رحمان، ہدایت اللہ، عطا الرحمان، شاہین خالد بٹ، اور متعلقہ وزارت کے حکام نے شرکت کی۔