یومِ ارض: ممبئی سے پیرس تک، شہری منصوبہ بندی کے مثالی ماحول دوست منصوبے

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 22 اپریل 2022 16:00

یومِ ارض: ممبئی سے پیرس تک، شہری منصوبہ بندی کے مثالی ماحول دوست منصوبے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2022ء) اس سال کے یومِ ارض کا موضوع ہے، ''ہمارے کرہ ارض میں سرمایہ کاری کریں۔‘‘ لیکن پیرس ماحولیاتی معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود ہماری قومی حکومتیں کم کاربن والی معیشتوں کو فروغ دینے میں تساہلی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ حالانکہ تبدیلی اور ماحول دوست معیشت کی تعمیر کی کلید ان کے ہاتھوں میں ہے۔

کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی کوششیں گوکہ جاری ہیں۔ لیکن دوسری طرف حکومتیں قدرتی ایندھن کی صنعت کو صاف توانائی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ سبسڈی دے رہی ہیں، جس کے سبب ماحولیاتی تبدیلی کا ہدف دور ہوتا جارہا ہے۔ یہ ناکامی مختلف وجوہات کی بنا پر پیچیدہ بھی ہوتی جا رہی ہے اور یوکرین کے حالیہ بحران نے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

(جاری ہے)

تاہم اس افسوسناک قومی رویے کے برخلاف مقامی، شہری اور علاقائی حکومتیں اپنے طور پر آگے بڑھ رہی ہیں۔

لندن کے میئر صادق خان نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے گزشتہ برس عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران کہا تھا، ''شہروں اور قومی حکومتوں کے درمیان وہی فرق ہے جو رات اور دن کے درمیان اور بہانہ بنانے والوں اور عملی اقدام کرنے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔

‘‘

ماحولیاتی ہدف کو قبل از وقت پورا کرنے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے والے کوپن ہیگن جیسے شہروں سے لے کر گاڑیوں سے پاک، صفر کاربن اضلاع تک کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے والے مقامی حکام کرہ ارض میں چار طریقوں سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

1۔ کوپن ہیگن: دنیا کا پہلا 'کلائمٹ نیوٹرل‘ شہر

کوپن ہیگن حکومت نے سن 2012 میں دنیا کا پہلا کاربن نیوٹرل شہر بنانے کا پرعزم منصوبہ پیش کیا تھا۔

ڈنمارک کا دارالحکومت سن 2025 تک، یعنی عالمی ہدف سے 25 برس قبل ہی،کاربن گیس کے اخراج سے مکمل نجات حاصل کر لینے کی منزل کی طرف گامزن ہے۔

کوپن ہیگن میں کاربن گیس کا 66 فیصد اخراج توانائی سے اور 34 فیصد ٹرانسپورٹ سے ہوتا ہے۔ اس نے توانائی کی کھپت اور پیداوار کے مسئلے کو حل کرکے نیز گرین موبیلیٹی کے ذریعہ اس میں تخفیف کا منصوبہ بنایا ہے۔

اس کے تحت زیادہ سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع پیدا کرکے سن 2005 کے مقابلے میں گیسوں کے اخراج میں صد فیصد کمی کی جائے گی اور اقتصادی ترقی میں تقریباً 25 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے کوپن ہیگن نے سن 2020 میں پرائیوٹ کاروں میں 20 فیصد کمی کردی کیونکہ پرائیوٹ کار شہرمیں کاربن آلودگی پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

چونکہ بجلی اور گرمی بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑا ذریعہ ہیں اس لیے کوپن ہیگن حکومت نے کوئلہ، تیل اور گیس کی جگہ قابل تجدید توانائی کا استعمال شروع کیا۔ ہوا، سورج اور بایو ماس سے پید اہونے والی توانائی اس کمی کو بڑی حد تک پورا کر رہے ہیں۔ لیکن 50 فیصد کمی توانائی کے بہتر استعمال سے کی جاسکتی ہے، اس لیے شہر میں اسمارٹ انرجی گرڈ نصب کیے گئے ہیں۔

جہاں تک ٹرانسپورٹ کا معاملہ ہے، کوپن ہیگن حکومت چاہتی ہے کہ سن 2025 تک شہر میں 75فیصد نقل و حمل کو پیدل، بائک یا پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ یقینی بنایا جائے۔ سن 2030 تک دھوئیں چھوڑنے والی تمام گاڑیاں ممنوع کردی جائیں گی۔

ممبئی: جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی رہنما

وزیر اعظم نریندر مودی نے جب عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ملک سے کاربن کے اخراج کو سن 2070 تک پوری طرح ختم کر دینے کا عہد کیا تو اسے کاربن خارج کرنے والے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے ملک کی طرف سے ایک شاندار قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

لیکن ممبئی، جو ملک کی سب سے گھنی اور دو کروڑ سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، کاربن گیس کے اخراج سے پاک شہر بننے کے ہدف کو مقررہ وقت سے دو دہائی قبل حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ممبئی نے پہلا ماحولیاتی ایکشن پلان امریکہ کے غیر سرکاری ادارے ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ اور سی 40 سیٹیز کے ساتھ مل کر مارچ میں جاری کیا۔

ایک ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ، اسے گرمی کا دباؤ اور سیلاب کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے، جو منصوبہ بنایا گیا اس میں توانائی سیکٹر کو بھی کاربن گیس سے پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ توانائی سیکٹر ہی شہر میں کاربن کے مجموعی اخراج کے 72 فیصد کے لیے ذمہ دار ہے۔

بجلی کے لیے کوئلے پر منحصر کرنے والے ممبئی نے سن 2050 تک 50 فیصد قابل تجدید توانائی میں تبدیل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے تحت ایسی عمارتوں پر بھی توجہ مرکوز کی جارہی ہے جن میں بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے۔

ممبئی نے ٹرانسپورٹ کے شعبے پر بھی توجہ دی ہے۔ شہری ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کی بجلی کاری کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ابتدائی طورپر سن 2023 تک سڑکوں پر 2000 سے زائد الیکٹرک بسیں اتاری جائیں گی۔

ممبئی میں کچروں کو ٹھکانے لگانے کے منصوبے پر بھی کام ہو رہا ہے اور پورے شہر میں شجر کاری کی جارہی ہے جس سے 10فیصد تک کاربن اخراج کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

3۔ پندرہ منٹ شہر

اگر شہروں کے پھیلاؤ کو کم کرکے انہیں گھنا اور انہیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل یاسائیکلوں کے ذریعہ پہنچنے کے لائق بنادیا جائے تو کاربن کے اخراج پر بڑی حد تک قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

پندرہ منٹ کے شہر پر اسی آئیڈیا کے تحت کام ہو رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وباکے دوران، میلبورن 20 منٹ اور پیرس 15منٹ شہر کے نام سے اس منصوبے پر تجرباتی طور پر کام شروع ہو چکا ہے۔

پندرہ منٹ شہر سن 2020 میں پیرس کے میئر اینے ہیڈالگو کے انتخابی مہم کا مرکزی موضوع تھا۔ ٹریفک جام کے مسئلے سے دوچار فرانس کے دارالحکومت میں اب ہر گلی میں سائیکل چلانے کے لیے راستے بنائے جارہے ہیں۔

اس کا مقصد فضائی، صوتی اور کاربن کی آلودگی کو کم کرنا ہے تاکہ کاربن گیس سے پاک پیرس 2050 کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔

مقامی انتظامیہ کام کرنے کے ایسے مراکز، دکانیں، کھیل کے میدان وغیرہ بنارہی ہے جہاں لوگ اپنے گھروں سے چل کر یا سائیکل کے ذریعہ 15منٹ میں آسانی سے پہنچ جائیں۔

4۔ ماحول دوست کمیونیٹیز

شہری اور علاقائی حکام ماحولیات پرعمل درآمد نہ کرنے کے لیے بالعموم قومی حکومتوں کی نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں جبکہ شہری ہاؤسنگ کوآپریٹیو سوسائٹیاں بھی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سطح پر بہت کچھ کرسکتی ہیں۔

سیاٹیل میں 'لارچ لیب‘ نامی ایک آرکیٹیکچرکمپنی نے ہاؤسنگ کوآپریٹیو یعنی عمارتوں کے گروپ کے متعلق جرمن آئیڈیا کی بنیاد پر کاربن سے پاک، کم توانائی کی کھپت والی شہری عمارتوں پر مشتمل 'ایکو ڈسٹرکٹ‘ پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔

یہ ڈیولپرز کے بجائے رہائشیوں کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کے پیچھے مرکزی خیال یہ ہے کہ ان پائیدار اضلاع میں توانائی کی کھپت بہت کم ہوگی۔

حالانکہ یہ مہنگے ہوتے ہیں لیکن طویل مدت میں سستے ثابت ہوں گے۔

اس خواب پر عمل درآمد جرمنی کے فاؤبان ضلعے میں دیکھی جاسکتی ہے، جو ماحولیاتی لحاظ سے مثالی شہر فرائبرگ کے پڑوس میں ہے۔ فرائبرگ نے سن 2030 تک کاربن گیس کے اخراج میں 60 فیصد تک کمی کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہاں تقریباً 5600 افراد رہتے ہیں۔ جو کار کے بجائے سائیکل کا استعمال کرتے ہیں یا پھر پیدل چلتے ہیں۔

مقامی سیویج سے چلنے والا ایک بائیوگیس پاور پلانٹ بجلی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔

کاربن گیس کے اخراج سے پاک اس قصبے کو یورپ کا سبز ترین قصبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسے ' پیسیو ہاؤس‘ نامی آرکیٹیکٹ کمپنی نے تیار کیا تھا اور ایک مقامی کمیونٹی گروپ، میونسپل حکومت کے ساتھ مل کر اس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

ج ا / ع آ (اسٹوارٹ براؤن)