آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت 16 مئی 2022 ء تک ملتوی

بدھ 11 مئی 2022 20:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 مئی2022ء) سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت 16 مئی 2022 ء تک ملتوی کر دی ۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کرنے سمیت بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کر دی ۔ بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے معاملہ پر سماعت کی ۔

دوران سماعت مسلم لیگ ( ق ) کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے،ارکان کو انحراف سے روکنے کے لئے آئین میں ترمیم بھی کی گئی، ہمسایہ ملک بھارت میں منحرف ارکان کے لئے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے،میری نظر میں قانون غیر موثر ہے،ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز کے وکیل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا، آرٹیکل تریسٹھ اے منحرف رکن کو ڈی سیٹ کرتا ہے،قانون سازوں نے منحرف رکن کے لیے نااہلی کی معیاد نہیں رکھی،جس نے پیسے لیکر انحراف کیا اسکی سزا سخت ہونی چاہیے،منحرف اراکین نے آخر کار عوام میں جاکر انکا سامنا کرنا ہے،ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اسکی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے،آئین ضمیر کے مطابق ارکان کو ووٹ کا حق دیتا ہے،اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر مسلم لیگ ق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپکی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر کچھ اُدھر ہیں،ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں،جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے، انحراف بزات خود ایک آئینی جرم ہے،مخرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے، انڈیا کے شیڈول 10 میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے،سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا،اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اسکے شواہد کیا ہوں گے،بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وہ ڈی سیٹ ہوئے،آج وہ سیاسی شخصیت سینیٹر ہے،آئین آزادی اظہار رائے کا حق بھی دیتا ہے،یہاں کہا جا رہا منحرف رکن کی سزا بڑھا دیں۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے،ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے،آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں،سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں،آرٹیکل 17 (2)کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں،سیاسی جماعتوں کے حقوق کا آرٹیکل 17 اور 63 اے کی موجودگی میں رابطہ کہاں منقطع ہو جاتا ہے،ڈی سیٹ ہونا آئینی نتیجہ ہے،کیا تاریخ میں کسی رکن کے ضمیر کے مطابق انحراف کرنے کا کوئی ڈاکومنٹ ہے۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے اس دوران سپریم کورٹ بار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں انحراف کرنا ٹھیک ہے،آئین میں انحراف کو غلط کہا گیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی کے ضمیر کا معاملہ ہے تو استعفی دے،ضمیر کی بات ہے تو انحراف نہ کریں،انحراف سے بہتر ہے کہ ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے،انحراف کرنے والوں کیلئے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں،وہ لفظ میں استعمال نہیں کروں گا،منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں، آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل 17(2) کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں,آرٹیکل 17 کی ذیلی شق 2 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہوتے ہیں،پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن ضروری ہوتا،پارٹی ڈسپلن نہیں ہوگا تو سیاسی جماعت میں انتشار ہوگا۔

اس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے استفسار پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے موقف اپنایا کہ اگر عدالت کہے گی تو وہ اس معاملے پر آئندہ منگل کو عدالت کی معاونت کریں گے،عدالتی بحث سے کسی نا کسی سمت کا تعین ہوجائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے بڑا اہم اور پیچیدہ سوال ہے ، قانون کے اندر عدالت کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی، عدالت کے سامنے بڑا اہم اور پیچیدہ سوال ہے، ایسے معاملات پر کئی لائینیں کھینچنا پڑیں گی ،آئندہ پیر کو صدارتی ریفرنس پر ہماری معاونت کریں،کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے،کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں کہ پارٹی سربراہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کاروائی کرے،پارٹی سربراہ نہ چاہے تو کاروائی نہ کرے،ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے،عدالت نے فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہوتا ہے،ہزاروں مقدمات عدالتوں کے سامنے زیرِالتوا ہیں،ہر معاملہ عدالت میں آرہا ہے،کسی کو غلط اقدام کا اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے،اٹھائیس مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی،اکتیس مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی،یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی،اکتیس مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا،ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے،اس لئیے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرینس سن رہے ہیں،منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے کا کوئی مقصد ہے،آئینی ترامیم کے ذریعے تریسٹھ اے کو لایا گیا، کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے،منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے، دیکھنا ہو گا کیا ہم آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے،1973 کے آئین میں قانون ساز سسٹم کو مستحکم کرنا چاہتے تھے،1985 میں آرٹیکل 96 کو ختم کردیا گیا،1985 کے انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر کرائے گئے،سپریم کورٹ نے 1989 میں قرار دیا کہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں،سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں،اس کے بعد آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا،کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں،کیا آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے،کیا آرٹیکل 63 اے کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں،کیا آرٹیکل 63 اے کا کوئی اثر بھی ہونا چاہئے۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر معاونت کرنے سمیت بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ پر سماعت آئندہ پیر 16 مئی تک کے لئے ملتوی کر دی ۔