خواتین کیخلاف جرائم ختم کرنے کیلئے انکی عزت کرنا بھی لازم ہے، جسٹس فائزعیسیٰ

ریپ کو زنا بالجبر کی حدود میں لایا گیا اس غلطی کو درست کرنے میں 27 سال لگے، کتنی خواتین نے اس دوران تشدد برداشت کیا ان کا جواب اللہ کو کون دے گا خطاب جنسی زیادتی کے 75فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، جنسی زیادتی کے جرائم کا ٹرائل تیز رفتاری سے ہونا چاہیے، جسٹس قاضی امین

ہفتہ 14 مئی 2022 22:58

خواتین کیخلاف جرائم ختم کرنے کیلئے انکی عزت کرنا بھی لازم ہے، جسٹس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 مئی2022ء) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم ختم کرنے کیلئے خواتین کی عزت کرنا بھی لازم ہے۔ہفتہ کوصنفی بنیاد پر جنسی تشدد کے واقعات اور عدلیہ کا ردعمل کے موضوع پر فیڈرل جوڈیشل کانفرنس ہوئی۔فیڈرل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے آج کے موضوع پر مہارت نہیں۔

انہوںنے کہاکہ 1979 میں جابر نے حدود آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانے کی کوشش کی، 1979وہی سال تھا جب روس نے افغانستان پر چڑھائی کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ہمارے تمام قوانین انگریزی میں ہوتے ہیں، قوانین دو زبانوں میں کیوں نہیں ہوسکتے آج تک سمجھ نہیں آیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ریپ کو زنا بالجبر کی حدود میں لایا گیا اس غلطی کو درست کرنے میں 27 سال لگے، کتنی خواتین نے اس دوران تشدد برداشت کیا ان کا جواب اللہ کو کون دے گا انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم ختم کرنے کیلئے خواتین کی عزت کرنا بھی لازم ہے، یہاں جابروں سے ملنا اور تعلق رکھنا ایک فخر سمجھا جاتا ہے۔

کانفرنس سے خطاب میں جسٹس ریٹائرڈ قاضی امین نے کہاکہ جنسی زیادتی کے 75فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، جنسی زیادتی کے جرائم کا ٹرائل تیز رفتاری سے ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پولیس آفیسر کو تفتیش کیلئے 500 روپے ملتے ہیں، جنسی زیادتی کے کیس میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ 14 ہزار کا ہوتا ہے۔جسٹس ریٹائرڈ قاضی امین کا کہنا تھاکہ انصاف کی فراہمی میں سارا نظام اور اسٹیک ہولڈر ناکام ہیں، جنسی زیادتی جرائم میں صرف 7 فیصد ملزمان کو سزائیں خطرناک صورتحال ہے، ضمانت قبل از گرفتاری کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، ریپ سمیت بڑے سے بڑے جرم کا ذمے دار ضمانت قبل از گرفتاری کرا لیتا ہے۔

کانفرنس سے خطاب میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کا کہنا تھاکہ خواتین اور بچے زیادہ تر جنسی تشدد کا نشانہ جاننے والوں کے ذریعے بنتے ہیں، میرا ملازم منشیات لینے لگا تو اپنی ہی بیٹی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھاکہ ماں بیٹی کو لے کرتھانے پہنچی تو محرر نے کہا گھر کا معاملہ ہے، جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات کا فیصلہ دو ماہ میں ہونا چاہیے۔