Live Updates

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنیچ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت ، مزید سماعت کل ( منگل کو ) ہوگی

پیر 16 مئی 2022 15:49

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی  سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنیچ   کی   آرٹیکل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 مئی2022ء) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پر مزید سماعت کل( منگل کو) ہوگی ۔ پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنیچ نے مذکورہ ریفرنس پر سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پنجاب کے معاملات کی وجہ سے لاہور میں مصروف ہوگئے تھے،اٹارنی جنرل کو لاہور میں تاخیر ہوگئی ہے،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوچکے ہیں،اٹارنی جنرل موٹروے سے اسلام آباد آرہے ہیں 3 بجے تک پہنچ جائیں گے۔

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے پیر کو دلائل میں معاونت کرنے کی بات خود کی تھی،مسلم لیگ (ن ) کے وکیل مخدوم علی خان کو بھی پیر کو دلائل کیلئے پابند کیا تھا، ہمیں اطلاع ملی ہے کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سے واپس نہیں آئے،یہ دونوں وکلاء صاحبان ایک فریق کے وکیل ہیں ،ایک سرکار کا وکیل ہے اور دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں، دیگر مقدمات قربان کر کے ساڑھے گیارہ بجے صدراتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کیا،آرٹیکل63اے کا فیصلہ دینا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63اے اہم ایشو ہے،اگر اٹارنی جنرل تین بجے پہنچ رہے ہیں تو کیس چار بجے تک سن لیتے ہیں،رات تاخیر تک اس مقدمہ کو سننے کے لیے تیار ہیں، یہ خدمت کا کام ہے جو ہم کرنا چاہتے ہیں،عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت تو چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔ معاون وکیل سعد ہاشمی نے عدالت کو بتایا کہ مخدوم علی خان 17مئی کو واپس آجائیں گے، مخدوم علی خان بیرون ملک مقدمہ میں دلائل دینے کیلئے گئے ہیں،18مئی کے بعد ہوسکتا ہے بینچ دستیاب نہ ہو،مخدوم علی خان سے رابطہ کر کے عدالت کو آگاہ کروں گا ۔ اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لارجر بینچ پورا ہفتہ دستیاب ہے، مخدوم علی خان بڑے وکیل ہیں، تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں،مخدوم علی خان کو پیغام دے دیں لارجر بینچ کا ہر رکن انکا بڑا احترام کرتا ہے، آئینی تشریح کا یہ بڑا اہم مقدمہ ہے، ایڈوکیٹ جنرلز اور بی این پی کے وکیل کو سن لیتے ہیں، اٹارنی جنرل کا بھی انتظار کریں گے۔

بی این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے میں تمام طریقہ کار موجود ہے، اگر آرٹیکل63 اے میں طریقہ کار موجود نہ ہوتا تو عدالت آرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ کی طرف دیکھ سکتی تھی، یہ ضروری نہیں کہ ہر انحراف کسی فائدے کے لئے ہو،اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے،انحراف خالصتاً سیاسی اختلافات پر بھی ہوسکتا ہے، آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ کی سزا فراہم کی گئی ہے، آرٹیکل63اے کے طریقہ کار سے ہٹ کر مزید گہرائی میں نہیں جانا چاہتے،ڈی سیٹ کے ساتھ مزید سزا شامل کرنے سے سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو گا،ایک سیاسی جماعت کے آدھے ارکان نے ایک طرف جبکہ آدھے ارکان نے دوسری طرف ووٹ دیا، اس سیاسی جماعت نے اپنے ارکان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا،ارٹیکل 63 اے پالیسی کا پابند کرتا ہے،ارٹیکل 63اے انحراف سے منع کرتا ہے،پارٹی سربراہ بھی منحرف ارکان کے خلاف کاروائی نہیں کرتے،عدالت پارٹی سربراہوں کے کنڈکٹ کو بھی سامنے رکھے۔

اس موقع پر چیف جسثس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے ارکان سے متعلق ریفرنس مسترد کر چکا ہے، آئین جمہوریت کو فروغ دیتا ہے،آئین سیاسی جماعت کو مضبوط بھی کرتا ہے،اکثر انحراف پر پارٹی سربراہ کاروائی نہیں کرتے ، آرٹیکل 63 اے ایک سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے،آرٹیکل63اے رکن کو چار چیزوں پر پالیسی کا پابند کرتا ہے،کوئی رکن اسمبلی کے آخری چھ ماہ میں انحراف کرے ایسی صورت میں اس رکن کی سزا تو نہ ہوئی، ہو سکتا ہے منحرف رکن اپنے پارٹی سربراہ کو اپنے اقدام پر راضی کر لے۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی فرد پر فوکس کرنے کی بجائے سسٹم پر فوکس کیوں نہ کیا جائے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے، کیا دس پندرہ ارکان سارے سسٹم کو تبدیل کرسکتے ہیں،کیا چند افراد سسٹم کو ڈی ریل کر سکتے ہیں۔ بی این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے اس موقع پر کہا کہ عدالت کی ابزرویشن بڑی اہم ہے،یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ انفرادی شخصیت کون ہے،ارٹیکل 95 کے تحت ارکان کا حق ہے وہ مرضی سے ووٹ دیں، کسی منحرف رکن کا دفاع نہیں کروں گا، کیا ارٹیکل 63 اے کی سزا بڑھانے سے جہموریت کو فروغ ملے گا،کیا سزا بڑھانے سے پارٹی سربراہ کی آمریت میں اضافہ ہو گا، عدالت یہ باتیں بھی دیکھے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دے دیں،استعفیٰ دینے سے سسٹم بھی بچ جائے گا،استعفیٰ دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائے گا، آئین کی تشریح کریں، تشریح کیلئے معاملے کے تمام پہلو کا جائزہ لیں گے،ضمیر کےمطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا، اس کا مطلب ہے آئین ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے کے اقدام کو بھی قبول نہیں کرتا۔

اس دوران وکیل مصطفی رمدے نے موقف اپنایا کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد ہوئی،پارٹی سربراہ نے کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا،آزاد کشمیر میں وزیراعظم تبدیل ہوا پارٹی سربراہ نے کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا آئین انحراف کی اجازت دیتا ہے، کیا جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ انحراف کس قسم کا ہے، کیا انحراف پر ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ہوگا۔

جس پر وکیل مصطفی رمدے نے عدالت کو بتایا کہ ووٹ شمار نہ کرنے کی دلیل پر سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے زور نہیں دیا،ہر مرتبہ عدالت کے کندھے استعمال ہوتے ہیں ۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ درخواست میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے،ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں ہیں ،ہمارے کندھے آئین پاکستان ہے،تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے،عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے،آئین کے تحت زمہ داری ہے کہ آئین کی تشریح کریں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس دوران ریمارکس دیئے کہ کیا آئین کسی رکن کو پارٹی سربراہ سے ساز باز کر کے پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزی کی اجازت دیتا ہے،ہو سکتا ہے پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ رکن کے خلاف ایکشن نہ لیں،پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی تکریم ہونی چاہیے،ایسا نہ ہو کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کردے، اگر ایسا اقدام ہوتا ہے تو کیا ایسے اقدام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

اس دوران بی این پی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ یہ حقیقت ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو کالعدم کردیتا ہے، اس اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا ۔ حقیقت بتا رہا ہوں،آرٹیکل تریسٹھ اے ڈی سیٹ کرتا ہے کہیں اختلاف پر ووٹ دینے سے نہیں روکتا، یہ ریفرینس سیاسی مفاد کے لئے بھیجا گیا ہے،آرٹیکل 63 اے سے آرٹیکل 95 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا۔

اس موقع پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی زبان بڑی واضح ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح میں واقعات کو بھی دیکھنا ہوگا۔ اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ دنیا کے دو سو ممالک میں سے 32 ملکوں میں انسداد انحراف قانون ہے،ان 32 ممالک میں صرف 6 ملکوں میں اس قانون پر عمل ہوتا ہے،ان 6 ممالک میں انحراف پر ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا ہے،اگر انحراف غلط کام ہے تو آئین انحراف کی اجازت کیوں دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 95 ارکان کو اپنے وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے۔ جو ا ب میں وکیل مصطفی رمدے نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 95 ارکان کو پارٹی ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس دلیل سے آپ نے سیاسی پارٹی کو ختم کردیا،اسطرح سے سیاسی پارٹی ٹی پارٹی بن جائے گی،ہم بحث سے ایک بات سمجھے ہیں کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کرسکتا ہے،کیا سربراہ پارٹی کے ساتھ ہوئے غلط اقدام کو معاف کرسکتا ہے،اگر پارٹی سربراہ رکن کے غلط کام کو معاف کردیں تو کیا یہ آئین کے خلاف ہو گا،کیا پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی کوئی اہمیت نہیں۔

اس دوران تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ پارٹی سربراہ بھی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی بابر اعوان کو جواب الجواب دینے سے منع کر تے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بابر اعوان صاحب آپ جوش خطابت میں عدالت کو اپنا جلسہ سمجھ لیتے ہیں،جواب الجواب نہیں تحریری گزارشات دے دیں۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے شمائل بٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین میں آزادانہ ووٹ کا اختیار عام شہری کو دیا گیا ہے ارکان اسمبلی کو نہیں ،آرٹیکل 51 آزادانہ ووٹ کی بات کرتا ہے جو عام شہری سے متعلق ہے،منتخب ارکان کے لئے ضروری ہے کہ ڈسپلن کیلئے پارٹی پالیسی پر عمل کریں،آرٹیکل 63اے کو آرٹیکل باسٹھ کے ساتھ ملا کر پڑھا جانا چاہئے،آئین کی کوئی شق خوبصورتی کے لیے نہیں،آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل باسٹھ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے سنگین نتائج ہونگے،پارلیمنٹ کے بعد بھی دو فورمز نے انحراف کا جائزہ لینا ہے،مانتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے میں طریقہ کار کےمطابق الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ فورم ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اس دوران ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی اسمبلی میں نہ آئے تو یہ بھی انحراف ہے، چاہے کسی نے گن پوائنٹ پر روکا ہو ۔ اس موقع پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے سوال اٹھایا کہ اگر وزیراعظم اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرے تو کیا پھر بھی رکن چاہے کہ وہی وزیر اعظم رہے،کیا پارٹی سربراہ کی شکایت پر الیکشن کمیشن کسی رکن کے کردار کو غلط یا سہی کہہ سکتا ہے،اگر عدم اعتماد کی تحریک سے قبل اراکین مستعفی ہو جائیں تو کیا حکومت کا تختہ الٹے گا نہیں۔

اس موقع پر بی این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے موقف اپنایا کہ اگر اختلاف پر ارکان استعفی دے دیں تو سسٹم تباہ نہیں ہو گا،آرٹیکل63اے ایک مکمل کوڈ ہے۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل ساڑھے تین سے چار بجے تک پہنچ جائیں گے، عدالت سے استدعا ہے کہ سماعت کل تک ملتوی کردیں ۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امید کرتے ہیں مخدوم علی خان آج منگل پیش ہوں گے۔ اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو تحریری دلائل دیں،صدارتی ریفرنس کی کاروائی کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت عظمی نے معاملہ پر مزید سماعت آج منگل دن ساڑھے گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کر دی ۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف دلائل دیں گے ۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات