سائنس دانوں خصوصاً باصلاحیت اور نمایاں کارکردگی کے حامل زرعی سائنس دانوں کو بنیادی پے سکیل کے بجائے پرکشش مراعاتی پیکیج دیئے جائیں تاکہ وہ مکمل یکسوئی اور محنت کے ساتھ دیہی و معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں: ڈاکٹر عشرت حسین

منگل 17 مئی 2022 12:28

سائنس دانوں خصوصاً باصلاحیت اور نمایاں کارکردگی کے حامل زرعی سائنس ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 مئی2022ء) ملک کے نامور ماہر معاشیات اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا ہے کہ سائنس دانوں خصوصاً باصلاحیت اور نمایاں کارکردگی کے حامل زرعی سائنس دانوں کو بنیادی پے سکیل کے بجائے پرکشش مراعاتی پیکیج دیئے جائیں تاکہ وہ مکمل یکسوئی اور محنت کے ساتھ دیہی و معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نیو سینٹ ہال میں محکمہ زراعت حکومت پنجاب (ریسرچ ونگ) کے زیرتربیت افسران اور یونیورسٹی کے ڈینز و ڈائریکٹرز سے یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں‘ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر محمد نواز میکن اور پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ (پارب) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عابد محمود کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ سائنسی ترقی میں وہ تین ممالک جاپان‘ کوریا اور چین سے بے حد متاثر ہیں جنہوں نے ریسرچ و ڈویلپمنٹ کو غیرمتزلزل قومی مقصد کے طو رپر آگے بڑھاتے ہوئے اپنی معیشت کی بنیاد بنایا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آج چین زیادہ علم سامنے لانے میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے جو یقینی طو رپر اس خطہ کے سائنس دانوں کیلئے ترقی کا نیا موقع ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام شعبہ جات میں کام کرنے والے سائنس دانوں اور ان کی تحقیقات کا قومی ڈیٹا بینک بنایاجانا چاہئے جس سے ان کا کام قومی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے کے ساتھ ساتھ نئے سائنس دان پہلے سے کئے گئے کام کو آگے بڑھانے کیلئے کاوشیں بروئے کار لائیں۔

تعلیم و تحقیق میں بہتر کوارڈی نیشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ سائنسی اداروں اور کاشتکاروں کے مابین روابط کو مضبوط اور باقاعدہ بنانا ہوگا تاکہ محدود وسائل میں بہترنتائج حاصل کئے جا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا وہ چاہتے ہیں کہ ایک جیسے موسمیاتی و ایکالوجیکل زونز کی وجہ سے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ڈویژن کے چاروں اضلاع سے وابستہ کسانوں کیلئے ایک کامیاب ماڈل کے طورپر سامنے آئے اسی طرح نواز شریف یونیورسٹی ملتان‘ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی متعلقہ علاقوں میں کاشتکاروں کیلئے قائدانہ کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہرچند لدھیانہ اور چندی گڑھ یونیورسٹی کا کوارڈی نیشن نئی مثال بن کر اُبھر رہا ہے جو اپنی تحقیقات کو فیلڈ میں موجود مشکلات کے حل کیلئے مربوط کئے ہوئے ہیں لہٰذا ان خطوط پر ہماری جامعات کو بھی پیش رفت کرنا ہوگی۔انہوں نے کہاکہ ترقی پسند کاشتکار اور عام کسان کے پیداواری خلاء کو کم کرنے کیلئے بہت کچھ غیرمعمولی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اوسط پیداوار کو بڑھایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ 66فیصد آبادی دیہاتوں میں قیام پذیر ہے اور ماضی قریب میں فصلوں کی امدادی قیمت بڑھانے کے نتیجہ میں 1100ارب روپے دیہی معیشت میں جانے سے شہری معاشیات میں بھی بہتری آئی لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ بینکوں کے قرضوں کا رخ ترجیحی بنیادوں پر چھوٹے کاشتکار کی طرف موڑا جانا چاہئے جس کیلئے بینکوں کو دیہی علاقوں میں سروسز فراہم کرنے ہونگی اور اس کیلئے حکومت ان کیلئے ٹیکس ریٹ میں نمایاں کمی لائے۔

انہوں نے بتایا کہ ایم آئی ٹی اور سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان اربوں پتی ہیں جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ مسابقتی اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنی پراڈاکٹس کو کمرشلائزڈ کرکے کروڑوں روپے کی رائلٹی کے حقدار قرار پاتے ہیں لہٰذا اگر پاکستان میں بھی ایسی مثال پر عملدرآمد کو یقینی بنالیا جائے تو ہمارے سائنس دان بھی حیرتیں تخلیق کر سکتے ہیں۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آبا دکے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں نے مہمان مقرر کی انسٹی ٹیوشنل اصلاحات پر لکھی گئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ قومی زراعت کی ترقی کیلئے انہوں نے زراعت سے وابستہ قومی و صوبائی اداروں میں بہتر کوارڈی نیشن کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ ہر سطح پر زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے جس میں بہتری کیلئے یونیورسٹی اپنی کاوشیں بروئے کار لا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہرچندپنجاب زرعی کواڈی نیشن بورڈ 1970ء کی دہائی سے کام کر تا چلا آ رہا تھا تاہم 1996ء میں قانون سازی کے ذریعے اس کے نئے نام سے کوارڈی نیشن نکال دیا گیا اور ایک دہائی بعد اس کا پہلا چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات ہوا جس سے کوارڈی نیشن کی صورتحال اور سنجیدگی واضح طو رپر نمایاں ہوتی ہے جبکہ این اے آر سی کی صورتحال بھی کوارڈی نیشن کے حوالے سے زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی ہر ریاست میں ایک ایگریکلچرکمیشن موجود ہے جس میں انڈسٹری اور کاشتکاروں کے نمائندے اپنی تجاویز اور آراء حکومتی نمائندوں سے منظور کرواتے ہوئے زرعی ترقی کو وقوع پذیر کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں اس سطح کا کوئی بھی تھنک ٹینک موجود نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جس نچلی سطح پر مشاورت کا عمل مکمل کرکے امریکی سینٹ میں ایک مخصوص عرصہ کے بعد فارم بل لایا جاتا ہے جس کے ذریعے زرعی ترقی کو یقینی بنانے کی پائیدار حکمت عملی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایاکہ لدھیانہ میں کسی ڈائریکٹر کی تقرری اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ کم سے کم تین سال فیلڈ میں خدمات سرانجام دینے کا عمل مکمل نہیں کر لیتا۔انہوں نے بتایاکہ یونیورسٹی اپنی اکیڈمک کونسل کے ذریعے تعلیم و تحقیق میں بہتری کیلئے اصلاحات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے جس سے باصلاحیت نوجوانوں کی افرادی قوت میدان عمل میں اتاری جا سکے گی۔

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد نواز میکن نے کہا کہ حکومت کو کاشتکاروں کیلئے سبسڈی کے بجائے انہیں آسان اور کم شرح سود پر قرضے دینے پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کے زیرکنٹرول زرعی فارمز پر تجربات اتنے کارآمد اور مفید اس لئے ثابت نہیں ہوتے کہ وہاں کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت فیصلہ کرنے یا پیسہ خرچ کرنے کیلئے قواعد و ضوابط کی پابندی مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسرڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ سال2016اور 2017ء میں بالترتیب سیڈ ایکٹ اور پلانٹ بریڈرز رائٹ ایکٹ منظور ہوئے لیکن آج تک ان پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی جس سے نئے بیج بنانے یا فصلوں کی نئی ورائٹیاں سامنے لانے والے سائنس دانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ و ہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ کا حصہ ہیں جس میں ٹیکنالوجی سامنے لانے سے لیکر انڈسٹری میں اس کا پارٹنر تلاش کرنے اور اسے کمرشلائز ڈ کرنے کیلئے وسائل تو موجود ہیں لیکن بنیادی کام کرنے والے سائنس دان کیلئے کچھ نہیں لہٰذا وہ چاہیں گے کہ زرعی ترقی کیلئے غیرمعمولی اور نمایاں کام کرنے والے سائنس دانوں اور پروفیسرز کیلئے خصوصی مراعاتی پیکیج سامنے لایا جائے۔

تقریب سے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر نے بھی خطاب کیا۔ازاں بعد ڈاکٹر عشرت حسین نے یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں و دیگر مہمانوں کے ہمراہ مختلف تحقیقاتی لیبارٹریوں سمیت کیس میں جاری تحقیقاتی منصوبوں کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔