Live Updates

مجھے سوچی سمجھی سازش کے تحت پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسمبلی کے اندر جو کچھ ہوا وہی لکھا‘محمد خان بھٹی

گریڈ 22 کا ذمہ دار آفیسر ہوں، میرے خلاف بلاجواز، جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا اسے خارج کیا جائے‘میڈیا سے گفتگو

منگل 17 مئی 2022 23:25

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 مئی2022ء) سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے کہاہے کہ عدالت کے حکم پر مقدمہ میں شامل تفتیش ہونے کیلئے مجھے پہلے تھانہ قلعہ گجر سنگھ بلایا گیا میں وہاں پہنچا تو کہا گیا کہ تھانہ گڑھی شاہو جائیں جب میں وہاں پہنچا تومجھے داخل ہونے سے روک دیا گیا، 20 منٹ دھوپ میں کھڑا کرنے کے بعد مجھے داخلے کی اجازت دی گئی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ سیکرٹری کوآرڈی نیشن عنایت اللہ لک، ڈائریکٹر سکیورٹی اینڈ انٹیلی جنس میجر (ر) فیصل حسین، چیف سکیورٹی آفیسر سردار اکبر ناصر اور سپیشل سیکرٹری ایڈمن چودھری عامر حبیب بھی اپنے اپنے بیانات جمع کروائے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ 15 اپریل کو ڈپٹی سپیکر چیف منسٹر کے الیکشن میں پریذائیڈنگ افسر ہوں گے اور وہ الیکشن کروائیں گے، اس سلسلے میں آئی جی پنجاب کو اسمبلی کے باہر لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے کا کہا گیا، جب میں صبح گھر سے دفتر پہنچا تو دو سے اڑھائی سو کے قریب غیر متعلقہ افراد اسمبلی میں پہلے سے جمع تھے، میں نے ڈپٹی سپیکر کو خط لکھا کہ نیچے والی گیلری کو بند کر دیا جائے، لوگ جمپ لگا کر اسمبلی فلور پر جا رہے ہیں جس پر ڈپٹی سپیکر نے تحریری جواب لکھا کہ نہیں اس گیلری کو اوپن رکھا جائے، اس ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس اسمبلی کے اندر داخل ہو گئی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ محمد خان بھٹی نے کہا کہ مجھے سوچی سمجھی سازش کے تحت پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے، میں نے اسمبلی کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا وہی لکھا، الٹا مجھ پر ہی جھوٹے الزامات لگا کر ایف آئی آر درج کروا دی گئی، پنجاب پولیس نے کل اسمبلی کے دس ملازمین کو حراست میں لیا ہے، ڈائریکٹر سکیورٹی اینڈ انٹیلی جنس پنجاب اسمبلی میجر (ر) فیصل حسین جو کہ 19 ویں گریڈ کے افسر ہیں اور پہلے سے ضمانت پر ہیں انہیں سرگودھا میں حملہ کر کے ایسے گرفتار کیا گیا جیسے وہ دہشت گرد ہوں۔

سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے اپنا بیان بھی تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں جمع کروایا گیا جس میں لکھا گیا ہے کہ میں 14 سال سے بطور سیکرٹری پنجاب اسمبلی اپنے فرائض منصبی ادا کر رہا ہوں، 15 اپریل کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے 16اپریل کیلئے میں، سیکرٹری کوآرڈی نیشن عنایت اللہ لکھ، ڈپٹی کمشنر لاہور، ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر عابد نے جناب ڈپٹی سپیکر جو کہ اس وقت پریذائیڈنگ بھی تھے کے ساتھ 15 اپریل کی شام کو میٹنگ کی، میں نے بطور سیکرٹری اسمبلی یہ تجویز دی کہ وزیراعلیٰ کا فری اینڈ فیئر الیکشن کروانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی معزز ممبر کے ساتھ کوئی مہمان نہیں آئے گا تاکہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے جس کے جواب میں جناب ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری نے تجویز دی کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کی طرف سے دس، دس مہمان جبکہ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی جانب سے پانچ، پانچ مہمانوں کو اجازت دی جائے، اس بات پر اتفاق ہونے کے بعد میٹنگ اختتام پذیر ہو گئی۔

16 اپریل کو صبح جب میں اسمبلی پہنچا تو سب سے پہلے جناب ڈپٹی سپیکر کی طرف سے ن لیگ کی طرف سے 82 مہمانوں کو سپیکر بکس میں آنے کے احکامات موصول ہوئے پھر ن لیگ کے ہی مزید 36 مہمانوں کے سپیکر بکس اور دیگر گیلریوں میں داخلے کے احکامات ملے، ڈپٹی سپیکر کی طرف سے موصول ہونے والی لسٹوں کے مطابق جب مہمانوں کی تعداد 200 سے بڑھ گئی تو میں نے جناب ڈپٹی سپیکر کو استدعا کی کہ 15 اپریل کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے جس پر ڈپٹی سپیکر نے تحریری حکم نامہ جاری کر دیا کہ میں تمام مہمانوں کو سپیکر بکس اور گیلریوں میں داخلے کی اجازت دیتا ہوں لہٰذا سپیکر بکس اور گیلریز کھول دی جائیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر نے بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ بلائی جس میں میرے ساتھ عنایت اللہ لک بھی ان کے دفتر گئے اور ان کے ساتھ میٹنگ اٹینڈ کی، وہاں سے ہی ان کے ساتھ دن ساڑھے بارہ بجے اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کیلئے ایوان میں داخل ہوئے تو معزز ممبران دوران احتجاج گتھم گتھا ہو گئے، نعرے بازی کی گئی اور کچھ معزز ممبران روسٹرم کی طرف آئے جس کی وجہ سے اجلاس شروع نہ ہو سکا۔

میں اور عنایت اللہ لک بھی ڈپٹی سپیکر کے ساتھ ہی ان کے چیمبر میں چلے گئے۔ اس دوران آئی جی پولیس پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب ڈپٹی سپیکر کے ساتھ مسلسل میٹنگ کرتے رہے، ہم نے جناب ڈپٹی سپیکر سے استدعا کی کہ کچھ دیر کیلئے اجلاس ملتوی کر دیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ کر کے افہام و تفہیم کے ساتھ کارروائی مکمل کی جائے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اچانک وردی میں ملبوس فورس تقریباً 300 سے زائد افراد جن میں اینٹی رائٹ فورس، ڈولفن، ایلیٹ اور کمانڈو ایوان میں داخل ہوئے اور آتے ہی معزز ممبران اسمبلی کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی، میں اور عنایت اللہ لک تمام کارروائی کے دوران مسلسل جناب ڈپٹی سپیکر کے ساتھ رہے۔

محمد خان بھٹی کے بیان کے مطابق دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں پولیس ہائوس کے اندر کبھی بھی داخل نہیں ہوئی چونکہ آئین کے تحت اسمبلی کا فلور مقدس جگہ ہوتی ہے، تاریخ میں بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی آپس میں شدید لڑائی کے باوجود بھی پولیس کبھی ایوان میں داخل نہیں ہوئی۔ محمد خان بھٹی نے استدعا کی کہ میں گریڈ 22 کا ذمہ دار آفیسر ہوں، مقدمہ ہذا میں مجھے اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے دیگر افسران کے خلاف بدنیتی سے بعد از اندراج مقدمہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ملوث کیا جا رہا ہے، یہ مقدمہ میرے خلاف بلاجواز، جھوٹا، بے بنیاد اور قابل اخراج ہے لہٰذا یہ مقدمہ خارج کیا جائے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات