گندم کے غذائیت سے بھر پور دانوں اور آٹے کی بہتر کوالٹی کی حامل اقسام متعارف کرانا ہوں گی ، ماہرین جامعہ زرعیہ

بدھ 18 مئی 2022 13:47

گندم کے غذائیت سے بھر پور دانوں اور آٹے کی بہتر کوالٹی کی حامل اقسام ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 مئی2022ء) جامعہ زرعیہ فیصل ۱ٓباد کے ماہرین زراعت نے کہا کہ دنیا کے ترقی پذیر اورغریب ممالک میں فوڈ سکیورٹی کے پیش نظر گندم کی فصل کو بہت اور نمایاں حیثیت حاصل ہے کیونکہ ان ممالک کی شہری و دیہی آباد ی کی غذائی ضروریات کا 75فیصد گندم اور اس کی مصنوعات سے پورا ہوتا ہے جبکہ ہمیں بھی مستقبل میں پاکستان میں گندم کے غذائیت سے بھر پور دانوں اور آٹے کی بہتر کوالٹی کی حامل اقسام متعارف کرانا ہوں گی جن سے غذائیت سے بھر پوراور اعلیٰ معیارکی چپاتیاں، بسکٹ اور بیکری کی دیگر مصنوعات تیار کی جاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ سے ہمارے سائنسدان موسمیاتی تبدیلیوں اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کی حامل نئی اقسام متعارف کروانے میں کامیاب ہوں گے جس کا اثر ملکی معیشت پر بھی پڑے گا اور ہم نہ صرف غذائی اجناس کی ملکی ضروریات پوری کرسکیں گے بلکہ اضافی پیداوار برآمد کرکے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کمانے کے قابل بھی بنایاجاسکے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایاکہ گندم پاکستان کی سب سے بڑی فصل ہے اور صوبہ پنجاب کی گندم کی کوالٹی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک مشینی زرعی انقلاب برپا نہ ہونے کے باعث دیہی علاقوں میں آبپاشی کیلئے فلڈ اریگیشن کا طریقہ اختیار کرنے سے پانی کے قیمتی وسائل بری طرح ضائع ہو رہے ہیں لہٰذا پانی کے ایک ایک قطرے کا درست استعمال کرنے کیلئے فوری اقدامات یقینی بناناہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ پانی زراعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے اس ضمن میں جامعہ نے 50فیصد تک زرعی پانی کی بچت پر مبنی کسان دوست ٹیکنالوجی متعارف کرا کے اس اہم مسئلے کی جانب کسانوں کی توجہ مبذول کرائی ہے جس سے امید ہے کہ آنیوالے سالوں میں ہم اپنے دستیاب آبی وسائل کا متناسب استعمال کرتے ہوئے زیادہ پیداوارحاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں قحط سالی اور افلاس کے خاتمے کیلئے کم عرصے میں تیار ہونے والی گندم کی اقسام اور زمینی وسائل کی ترقی کیلئے جو انقلابی منصوبہ شروع کیاگیا اس کے اثرات آج بھی غذائی اجناس کی وافر مقدار میں دستیابی کی صورت میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے آنیوالی نسلوں کیلئے پانی کے متناسب استعمال اور پریسین ٹیکنالوجی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کیلئے تمام سائنسدانوں کو عالمی سطح پر مل جل کر کوششیں بروئے کار لانا ہوں گی۔