کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے کیس پر قریبی نظر ہے، برطانوی حکومت

DW ڈی ڈبلیو بدھ 18 مئی 2022 15:00

کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے کیس پر قریبی نظر ہے، برطانوی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2022ء) برطانوی پارلیمان کے ایوان بالا میں 17 مئی منگل کے روز ایک بار پھر سے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق سوالات و جوابات ہوئے، جس میں علیحدگی پسند رہنما اور جے کے ایل ایف کے چیئرمین یاسین ملک کے بارے میں خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

بھارتی حکومت نے دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے ہی دہشت گردی سمیت متعدد الزامات کے تحت یاسین ملک کو گرفتار کر لیا تھا، جو گزشتہ کئی برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

تاہم ان کے کیس کی نوعیت اور ان کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں ہے اسی لیے قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم رہا ہے۔

برطانوی پارلیمان مسئلہ کشمیر

منگل کو برطانوی پارلیمان کے ایوان بالا میں’’بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال‘‘ پر سوالات و جوابات کا ایک سیشن تھا۔

(جاری ہے)

اس سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے برطانوی نائب وزیر خارجہ طارق احمد نے کہا کہ وقتاً فوقتا انسانی حقوق کے بارے میں متعلقہ ممالک سے تعمیری انداز میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

اس موقع پر پاکستانی نژاد لبرل ڈیموکریٹ لارڈ قربان حسین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معروف علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے مقدمے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر اس حوالے سے برطانوی حکومت کیا کر رہی ہے؟

اس کا جواب دیتے ہوئے لارڈ طارق احمد نے کہا کہ جہاں تک، ’’مسٹر یاسین ملک کے کیس کا مخصوص معاملہ ہے، تو ہم اس کی بہت قریب سے نگرانی کر رہے ہیں۔

ہم نے نوٹ کیا ہے کہ ان پر بھارتی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس لیے ہم بھارت کے آزاد عدالتی عمل میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے۔ تاہم، اپنی تمام مصروفیات میں، سبھی ممالک پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کسی بھی قیدی کے ساتھ سلوک کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام کریں۔‘‘

لارڈ قربان حسین نے یاسین ملک کو ایک ایسا ’’ممتاز کشمیری رہنما بتایا، جس کے برطانیہ میں بھی بڑی تعداد میں حمایتی ہیں۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ یاسین ملک کے خلاف الزامات ’’جعلی‘‘ ہیں اور کشمیریوں کو اس بات کا شک ہے کہ بھارتی حکومت ان سے کسی بھی طرح ’’چھٹکارا‘‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔

لارڈ حسین کا کہنا تھا، ’’ان کی جان کو حقیقی خطرہ لاحق ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر برطانوی حکومت سے پوچھا،’’کیا حکومت یاسین ملک کی جان کی حفاظت کے لیے اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرے گی؟‘‘

ایوان بالا کے ایک اور بھارتی نژاد رکن لارڈ اندرجیت سنگھ نے بھی اس مسئلے پر حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل پر برطانیہ کے رد عمل کو خاموش نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ بھارت دولت مشترکہ کا ایک رکن ہے۔

انسانی حقوق سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لارڈ طارق احمد نے کہا کہ برطانیہ کی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممالک کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ ان کے ملکی قوانین بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کا کوئی بھی الزام گہری تشویش کا باعث ہوتا ہے اور اس کی مکمل، مناسب اور شفاف تحقیقات ہونی چاہییں،’’ ہم اس حوالے سے بھارت اور پاکستان دونوں کی حکومتوں کے ساتھ تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

‘‘

برطانوی وزیر نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی طور پر آگے بڑھیں اور ثقافت اور زبان کے لحاظ سے مشترکہ دونوں ممالک کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت آپس میں متفق ہونے پر ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے گزشتہ ماہ دورہ بھارت کے دوران انسانی حقوق سمیت وسیع پیمانے کے مسائل پر بھارتی حکام سے بات کی تھی۔