پاکستان اور چین سے خطرات کے مدنظر بھارت اگلے ماہ میزائل سسٹم نصب کرے گا، پنٹاگون

DW ڈی ڈبلیو بدھ 18 مئی 2022 15:20

پاکستان اور چین سے خطرات کے مدنظر بھارت اگلے ماہ میزائل سسٹم نصب کرے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2022ء) امریکہ کے ڈیفنس انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر لفٹیننٹ جنرل اسکاٹ بیریئر کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی دفاع کے لیے ایک طرف جہاں فوج کے تمام شعبوں بشمول فضائی، زمینی، بحری اور اسٹریٹیجک جوہری فورسز،کی جدیدکاری پر عمل کررہا ہے وہیں پاکستانی اور چینی خطرات سے نمٹنے کے لیے روسی ساخت کا ایس 400 میزائل سسٹم بھی نصب کررہا ہے۔

لفٹیننٹ جنرل بیریئر نے امریکی سینیٹ کی مسلح سروسز کمیٹی کے اراکین کو بتایا،''بھارت کو دسمبر میں روسی ساخت فضائی دفاعی سسٹم ایس 400 کی پہلی کھیپ ملی تھی اور وہ اس سسٹم کو جون 2022 ء تک پاکستانی اور چینی خطرات سے دفاع کے لیے نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘

پنٹاگون کے افسرنے مزید کہا،''بھارت اپنے ہائپر سونک بیلسٹک، کروز اور ایئر ڈیفنس میزائل صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے مسلسل اقدامات کررہا ہے اور اس نے سن 2021 میں متعدد تجربات بھی کیے تھے۔

(جاری ہے)

خلاء میں بھارتی سیٹلائٹس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یہ اپنے خلائی اثاثوں مثلاً خلائی حملے کی صلاحیتوں کو وسعت دے رہا ہے۔‘‘

مودی کا ملکی دفاعی صنعت کی توسیع پر زور

وزیر اعظم نریندر مودی نے سن 2019 میں بھارت کی گھریلو دفاعی صنعت کی توسیع کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے پر زور دیا تھا۔ بھارت نے اس سلسلے میں غیر ملکی سپلائرز سے دفاعی خریداریوں کو کم کرنے کے لیے ایک منفی درآمداتی فہرست بھی تیار کی ہے۔

لفٹیننٹ جنرل بیریئر کا کہنا تھا کہ بھارت وسیع ترفوجی جدیدکاری کے پروگرام پر عمل کررہا ہے اور اپنی گھریلو دفاعی پیداوار پر توجہ دے رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت قائدانہ رول ادا کرنے اور بحیرہ ہند کے علاقے میں سکیورٹی فراہم کرنے والے ملک کے طورپر اپنی خارجہ پالیسی کو مسلسل آگے بڑھارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت انڈو پیسیفک علاقے میں خوشحالی کو فروغ دینے اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے باہمی اور کثیرفریقی میکانزم کے ذریعہ اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے اسٹریٹیجک پارٹنرشپ قائم کررہا ہے۔

پاکستان اور چین سے خطرہ

لفٹیننٹ جنرل بیریئر کا کہنا تھا، ''بھارت نے یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے معاملے پر غیر جانبدار موقف اپنایا۔ روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات اب بھی مستحکم ہیں اور اس نے روس کے ساتھ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پر مشتمل ' ٹو۔ ٹو فارمیٹ‘ کی پہلی میٹنگ دسمبر میں کی۔ بھارت نے اس سے پہلے اس طرح کی میٹنگ صرف امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ کی تھی۔

امریکی ڈیفنس انٹیلیجنس کے سربراہ لفٹیننٹ جنرل بیریئر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد نئی دہلی پاکستان سے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے سرگرم عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے ممکنہ حملوں کے حوالے سے فکر مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے بھارتی اہلکاروں کے انخلاء کی وجہ سے ممکنہ خطرات پر نگاہ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔

حالانکہ اس دوران ایسی خبریں بھی ہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر غور کررہا ہے تاہم فی الحال اپنے سفیر وہاں نہیں بھیجے گا۔

امریکی اعلٰی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 2003 میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود بھارت کسی بھی دہشت گردانہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اس نے کشمیر میں دہشت گردی مخالف کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سن 2020 میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارتی اور چینی فوج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ گوکہ پچھلے برس سے دونوں ملکوں کے مابین اعلٰی سطحی فوجی اور سفارتی بات چیت کا سلسلہ چل رہا ہے لیکن تعطل اب بھی برقرار ہے اور دونوں ملکوں نے تقریباً پچاس ہزار افواج اپنی اپنی سرحدوں پر تعینات کررکھی ہیں۔