یوکرین کی جنگ سے داعش کیا کیا فائدے اٹھا سکتی ہے؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 18 مئی 2022 18:00

یوکرین کی جنگ سے داعش کیا کیا فائدے اٹھا سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2022ء) اسلامک اسٹیٹ یا داعش کا کہنا ہے کہ یوکرینی جنگ کی وجہ سے اب اسے موقع ملا ہے کہ وہ شام میں ایک امریکی حملے میں رواں برس فروری میں ہلاک ہونے والے اپنے کمانڈر کا بدلہ لے سکتی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش یوکرینی جنگ سے پیدا حالات سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

دہشت گرد تنظیم کے مطابق 'کفار‘ اس وقت یوکرین کی جنگ میں مصروف ہیں اور داعش کے حامی پھر سے اکھٹے ہو کر اپنی کارروائیاں شروع کر سکتے ہیں۔

مسلم دہشت گرد تنظیمیں اپنے علاوہ بقیہ عقائد کے ماننے والوں کو 'کافر‘ قرار دیتے ہیں۔

جہادی گروپوں کی سرگرمیاں بڑھ سکتی ہیں

اس دوران ایک جریدہ جو القاعدہ کا کھلا حامی ہے، اس میں شائع ہونے والے بیان میں اس دہشت گرد نیٹ ورک نے داعش کے بیان سے دوری اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

(جاری ہے)

اجتماعی قبریں اور گم شدہ افراد کی تلاش میں فرقہ واریت کا عنصر

یہ امر اہم ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وابستگی رکھنے والے مختلف گروپوں کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے اور یہ افریقہ سے ایشیا تک سرگرم و فعال ہیں۔

اس وقت یہ زیادہ کارروائیاں افریقہ میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یوکرینی جنگ سے اسلامک اسٹیٹ، القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند جہادی گروپ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

سماجی بے چینی کا فائدہ

مصری جریدے الاہرام کے چیف ایڈیٹر عزت ابراہیم یوسف کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ اس وقت پیدا سماجی بے چینی کا بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے کیونکہ معاشرتی اعتبار سے عام لوگ مہنگائی سے شدید پریشان ہیں اور پریشانی کی اول وجہ کووڈ انیس اور دوم یوکرینی جنگ ہے۔

رواں ماہ مراکش میں داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا اور اس میں شریک بائیس رکنی عرب لیگ نے بھی ایسا ہی انتباہ جاری کیا تھا۔ سینیئر مصری سفارتکار احمد ابو الغیث کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یوکرینی جنگ اور کلائمیٹ چینج کی مجموعی صورت حال سے اسلامک اسٹیٹ جیسے گروپ اپنی استحصالی سرگرمیوں کا آغاز کر سکتے ہیں۔

انہوں نے ان استحصالی سرگرمیوں کی تفصیل نہیں بیان کی۔

داعش کے جنگجو پاکستان میں پھیل رہے ہیں

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوکرینی جنگ سے ترقی پذیر اور انتشار کے شکار ممالک میں عدم استحکام نے پیدا ہونا شروع کر دیا ہے اور یہ صورت حال انتہا پسند گروپوں کی منفی سرگرمیوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ اقتصادی مشکلات اور سیاسی بے چینی سے مزید مقامی افراد انتہا پسند گروپوں میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔

نوکری نہیں اور سماجی حیثیت بھی نہیں

سن 2015 میں اسلامک اسٹیٹ میں سب سے زیادہ تیونس کے شہری شامل ہوئے تھے کیونکہ اس وقت وہاں اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی۔ گلوبل سکیورٹی کے ایک مشاورتی ادارے سوفان گروپ کے مطابق چھ ہزار تیونسی باشندے اسلامک اسٹیٹ میں پہلے سے موجود ہیں۔ دیگر میں ڈھائی ہزار روسی، چوبیس سو سعودی، سترہ سو فرانسیسی اور سات سو ساٹھ جرمن بھی داعش کے حلقے میں ہیں۔

اس وقت مسلم ملکوں کے شہریوں کو اس دہشت پسند گروپ میں شامل ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ اب عراق و شام کے علاوہ یورپ سے بھی لوگ اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے پرتول رہے ہیں کیونکہ کئی مسلم ملکوں میں شدید معاشی مشکلات کی لپیٹ میں ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار دی اسٹدی آف وائلنٹ ایکسٹریمزم کی ڈائریکٹر این اسپیکہارڈ کا کہنا ہے کہ تیونسی باشندوں کا اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کا تعلق معاشی بے چینی سے ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی نوکری نہیں۔

اسپیکہارڈ کے مطابق ایسے نوجوان تیونسی باشندوں کے پاس یہی ایک راستہ ہے کہ وہ گھر چھوڑ کر اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو جائیں جو انہیں تنخواہ دینے کے علاوہ مفت رہائش اور شادی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

داعش نے نئے رہنما کا اعلان کردیا اور پیش رو کی موت کی تصدیق کردی

افغانستان میں فعال اسلامک اسٹیٹ خراسان کے حوالے سے بھی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں کہ وہ مقامی بیروزگار افراد کو اس تنظیم کا حصہ بننے پر دو سو ستر ڈالر تک کی تنخواہ دیتی ہے۔

کیتھرین شیئر، مشرقِ وسطی (ع ح/ ع ا)