آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے سینئر موسیقار استاد ادریس حسین جعفری، غیاث الدین افسر اور غزل سنگر فیروز اختر کی یاد میں تعزیتی اجلاس

آرٹس کونسل فنکاروں کا ہی ہے اگر فن کار نہ ہوں تو اس کا وجود بے معنی ہے،کلاسیکل میوزک کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا اس کا اپنا ہی مزہ ہے،صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعرات 19 مئی 2022 17:56

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے سینئر موسیقار استاد ادریس حسین ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 مئی2022ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے سینئر میوزیشن استاد ادریس حسین جعفری، غیاث الدین افسر اور غزل سنگر فیروز اختر کی یاد میں تعزیتی اجلاس آرٹس کونسل لابی ایریا میں منعقد کیاگیا جس میںصدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، محمد علی، مظہر امراﺅ بندوخان، وسیم فیروز، اخلاق بشیر، اقبال لطیف، بشیر خان سدوزئی، سلمان علوی، فیصل ندیم، وکی، عبدالباسط نے اظہارِ خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض نعمان خان نے انجام دیے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ فیروز اختر سے ہمارے دوستی بے تکلفی تھی وہ بہت بڑے آدمی تھے، ادریس جعفری ہماری اکیڈمی میں بھی رہے، غیاث الدین افسر اپنے کام میں ماہر تھے، انہوں نے کہاکہ آرٹس کونسل آرٹسٹوں کا ہی ہے اگر فن کار نہ ہوں تو اس کا وجود بے معنی ہے، کلاسیکل میوزک کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا اس کا اپنا ہی مزہ ہے، ہم نے فنکاروں کو گھرجیسا ماحول مہیا کیا، آرٹس کونسل ان کے بچوں کے ساتھ ہے ۔

(جاری ہے)

محمد علی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ادریس جعفری سولو بجانے کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں بے مثال تھے، انہوں نے کہاکہ غزل گانے والا ختم نہیں ہوا بلکہ غزل بننا بند ہوگئی ہے، وہ سُروں کو انگلیوں پر نچاتے تھے،بشیر خان سدوزئی نے کہاکہ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے معاشرہ سے ایسے لوگ الوداع ہورہے ہیں جو ہر شعبے میں نامور استاد تھے، کورونا کی وباءمیں ہمارے سیکڑوں ممبر جو ادیب، فنکار، شاعر اور مصور تھے ہم سے جدا ہوگئے، ہمیں ان جیسے میوزیشن اور غزل سنگر پیدا کرنے ہوں گے تاکہ وہ معاشرہ اپنا مقام بناکر اسے سہارا دے سکیں، انہوں نے کہاکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ فن و ثقافت اور علم و ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، اقبال لطیف نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انسان نام سے نہیں کام سے پہچانا جاتا ہے ،ان تینوں میں اپنے شعبے میں کام کرنے کی جو لگن اور جذبہ تھا وہ قابلِ دید تھا، ان لوگوں نے جو کام کیا وہ ہمارے لیے قابلِ فخر ہے، انہوں نے کہاکہ آرٹس کونسل کے دروازے ہمیشہ فنکاروں کے لیے کھلے ہیں،سلمان علوی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ادریس بھائی کمال کے آدمی تھے ، فیروز بھائی کو دیکھ کر میں نے غزل گانا شروع کی، غزل کی محفلوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا،انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ غزل کا سلیکشن اور کلیکشن جیسا فیروز اختر کے پاس تھا کسی کے پاس نہیں، وسیم فیروز نے کہاکہ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اخلاق بشیر نے کہاکہ یہ تینوں منفرد شعبے سے وابستگی رکھتے تھے ، میرے والد کی انہیں بہت شفقت ملی، فیروز اختر بہت بڑے اور لاجواب انسان تھے ، انہوں نے کہاکہ فیروز بھائی علم موسیقی کا سمندر تھے اور وہ چاہتے تھے کہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فیض یاب ہوں،ادریس جعفری کے صاحبزادے وکی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ میرے والد ایک بہت بڑے انسان تھے، انہوں نے ہماری پرورش بہت اچھی طرح کی، اچھی تعلیم دلوائی، ان کی یادیں اتنی اچھی ہیں کہ ہم انہیں یاد کر کے ایسا محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں، انہوں نے کہاکہ جب بھی آپ لوگ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو میرے والد کو ضرور یاد رکھیں، آرٹس کونسل کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ان کی یاد میں پروگرام رکھا، عبدالباسط نے کہاکہ ادریس خاں صاحب پاکستان کے واحد آدمی تھے جنہوں نے نورجہاں، مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، ترنم ناز سمیت قدآور شخصیات کے ساتھ کام کیا، ان کے ساتھ جو وقت گزارا وہ کبھی نہیں بھول سکتا، مجتبیٰ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ان تینوں سے وابستگی رہی، انہوں نے ہمیشہ نوجوان نسل کو آگے لانے میں کردار ادا کیا، خلیل قریشی نے کہاکہ فیروز سے چالیس سال پرانا رشتہ تھا، بزمِ غزل میں ایک ساتھ کام بھی کیا، جو بھی بات ہوتی منہ پر کہہ دیتے تھے کبھی گھما پھرا کر بات نہیں کی، فیصل ندیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ فیروز اختر کا مہدی حسن سے بہت یارانہ تھا، وہ ملنسار انسان تھے آخر میں قاری وقار نے دعا کروائی۔