اسٹیک ہولڈرز کو درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانے سے قبل ایک بار پھرآن بورڈنہیں لیا گیا،بی ایم جی

جمعرات 19 مئی 2022 22:42

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2022ء) بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کی قیادت نے ایف بی آر کی جانب سے لگژری آئٹمز پر پابندی عائد کرنے اور کاروں، گھریلو اشیاء، موبائل فونز، مشینری، ٹائلز، سیرامکس اور دیگر کئی اشیاء سمیت متعدد درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ڈیوٹی میں اضافے کا فیصلہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا گیا تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ نہ ہو لیکن بدقسمتی سے اسٹیک ہولڈرز کو ایک بار پھر آن بورڈ نہیں لیا گیا جس سے بہت زیادہ کنفیوژن پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ملک کو درپیش معاشی مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے اجلاس کے اختتام پر جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی طاہر خالق، ہارون فاروقی، انجم نثار، جاوید بلوانی اور جنرل سیکریٹری بی ایم جی اے کیو خلیل نے کہا کہ کاروباری اور صنعتی برادری کو خدشہ ہے کہ ایف بی آر نے ان اشیاء پر بھی ڈیوٹی بڑھا دی ہوگی جو یا تو مقامی طور پر تیار نہیں ہو رہی یا مانگ کے مقابلے کم مقدار میں تیار کی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

اس اقدام سے ایسی تمام اشیاء کی قلت پیدا ہو جائے گی اور ڈیوٹی میں بے تحاشا اضافہ ہونے سے ان تمام اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ درآمدی اشیا کے مقابلے کوالٹی کے حوالے سے مقابلہ بھی برقرار رکھا جائے۔ہم امید کرتے ہیں کہ ایف بی آر نے صنعتی مقاصد کے لیے درآمدی خام مال پر ڈیوٹی میں اضافے کی سفارش نہیں کی ہوگی، جو اگر بڑھا دی گئی تو صنعتی کارکردگی بری طرح متاثر ہوگی اور معیشت مزید بحرانوں میں ڈوب جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی استعمال کے لیے درآمد کئے جانے والے خام مال بغیر کسی رکاوٹ جاری رکھنا چاہیے تاکہ پیداوار میں اضافہ، اعلیٰ برآمدات اور درآمدات کے متبادل اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مسلسل گراوٹ پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا جو اب تک کی بلند ترین سطح 200 روپے تک پہنچ چکاہے جبکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، پٹرولیم کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی قیمتوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھاری سبسڈی فراہم کرنے اور دیگر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے معاشی اشارے بھی تاجر وصنعتکار برادری کے لئے پریشانی کا سبب ہیں جنہیں اگر فوری طور پر اور احتیاط سے سنبھالا نہیں گیا تو تباہ کن ثابت ہوں گے۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے جبکہ سیاسی بحرانوں سے بھی جنگی بنیادوں پر نمٹنا ہوگا کیونکہ یہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بری طرح متزلزل کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔انہوں نے حکومت، تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں پر زور دیا کہ چونکہ پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے، اس لیے ان سب کو اپنے سیاسی اختلافات کو فی الوقت بھلا کر ملک کو درپیش معاشی اور مالیاتی بحرانوں کو ترجیح دینا ہو گی اور ایسے اقدامات ترجیحی بنیاد پر عمل میں لانے ہوں گے جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے قانونی طور پر کمایا جانے والے زرمبادلہ کی بڑی رقوم اب بھی ملک سے باہر کھڑی ہیںلہذا ایسی غیر ملکی ترسیلات پر مکمل ٹیکس چھوٹ دے کر ملک میں لانا ہوگا۔ بیرون ملک مقیم محب وطن پاکستانیوں کو پاکستان میں رقوم بھیجنے کی مکمل حوصلہ افزائی، ترغیب اور سہولیات مہیا کرنی ہوں گی۔حکومت کو اس حد تک سازگار ماحول قائم کرنا ہوگا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اعتماد کے ساتھ پاکستان میں رقوم منتقل کر سکیں اور معیشت کے متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکیں۔

ملک کا دیوالیہ ہوجانے کے حوالے سے جاری باتوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ مادر وطن کو تباہی سے بچانے کا کوئی حل نکالنے کے بجائے سیاسی جماعتیں الزام تراشی اور پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں جونہ تو ان کے حق میں ہے اور ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ معیشت کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جرات مندانہ فیصلے کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں سیاسی لڑائی کا وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ پاکستان کو ایک انتہائی غیر مستحکم ملک کے طور پر پیش کرکے باقی دنیا کو انتہائی منفی پیغام دے رہا ہے جو نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے حق میں۔بی ایم جی لیڈرشپ نے اس بات پر زور دیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر ’چارٹر آف اکانومی‘ کو اتفاق رائے سے تیار کرناہوگا جس کا کراچی چیمبر طویل عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے۔

سیاسی اختلافات سے قطع نظر، مذکورہ چارٹر آف اکانومی کے تحت جن اقتصادی پالیسیوں پر ایک بار اتفاق کیا گیا ہو اور ان پر عمل درآمد بھی کردیا گیا ہو انہیں برقرار رہنا چاہیے اور جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر رہنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست کے بجائے معیشت کو کسی بھی قیمت پر ملک کی قیادت کرنی ہوگی اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور وہ اقدام اٹھانا چاہیے جو پاکستان اور اس کی معیشت کے حق میں ہوں۔

بی ایم جی لیڈرشپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ گفت و شنید میں طے شدہ حکمت وعملی اور ٹارگٹڈ سبسڈیز کو عام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا کیونکہ کاروباری برادری کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ یہ بوجھ عام آدمی اور دیانت دار ٹیکس دہندگان پر پڑے گا۔