رعایتی توانائی ٹیرف کا تسلسل برآمدی صنعتوں کے لیے ناگزیر ہے، پی ایچ ایم اے

جمعرات 19 مئی 2022 22:42

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2022ء) پانچ بڑے ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرز کے لیے رعایتی ٹیرف کا جاری رہنا قومی مفاد میں ناگزیر ہے کیونکہ پاکستان میں جاری معاشی بدحالی اور سیاسی کشمکش اور غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں کاروبار تنائو اور ٹھہرائو کا شکار ہیںاور صنعتکار و تاجر برادری کو غیر یقینی صورتحال کے ساتھ مایوسی کا بھی سامنا ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، روپے کی بلند ترین تاریخی گراوٹ نے تجارت اور صنعت کو مفلوج کر دیا ہے اور واحد کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا شعبہ برآمدات ہے جو اس مشکل ترین وقت میںزرمبادلہ کما رہا ہے،قومی خزانے کے لئے ریوینیو جنریٹ کر رہا ہے اور سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی حکومت کا پانچ بڑے ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرزکے لیے رعایتی بجلی کے نرخوں کو ختم کرنے کا کوئی بھی غیر دانشمندانہ اقدام یافیصلہ تباہ کن ہو گا اور برآمدات بڑھانے کے لیے برآمد کنندگان کی انتھک جدوجہد اور کوششوں کو بھی تباہ کر دے گا۔

ویلیو ایڈیڈٹیکسٹائل کی برآمدات2020-21 میں 15.4 بلین ڈالرز کی برآمدات کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ 2021-22 (10 ماہ) میں برآمدات 15.98 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور ان دس ماہ میں ایکسپورٹس میں 25 فیصد سے زیادہ کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسٹائل گروپ میں نٹ ویئر نے برآمدات میں سب سے زیادہ نمو اور اضافہ حاصل کیا ہے جو 2020-21میں 3.8 بلین ڈالر تھا اور2021-22(10 ماہ) میں 35 فیصد اضافے کے ساتھ نٹ ویئر ایکسپورٹ کا حجم 4.2 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔

ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی خبر پانچ برآمدی شعبوں کو سبسڈی جاری رکھنے کے فیصلے سے متعلق انتہائی پریشان ہیں جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پاور ڈویژن نے اجاگر کیا ہے کہ برآمدی صنعتوں کے لیے رعایتی توانائی ٹیرف کا تسلسل 32ارب روپے کی اضافی گرانٹ سے مشروط ہے جس کے لئے پاور ڈویژن نے وزارت تجارت (ٹیکسٹائل ونگ) سے مذکورہ ضمنی گرانٹ کی منظوری حاصل کرنے کو کہا ہے۔

برآمد کنندگان نے لفظ سبسڈی استعمال پر بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت برآمدی صنعتوں کو رعایتی ٹیرف کے لیے بجٹ میںرقم اسلئے مختص کرتی ہے کیونکہ عالمی سطح پر مقابلے و مسابقت کے لئے میدان ہموار کرنا حکومتی کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی طرف سے رعایتی توانائی ٹیرف فراہم کرنے کے لیے اس طرح کی گرانٹ علاقائی مسابقت اور برآمدات میں اضافے کے مقصد کے لیے برآمدی صنعتوں کے لیے برابری کے میدان میں مقابلے کو یقینی بناتی ہے۔

درحقیقت حکومت صنعتوں سے کراس سبسڈی کا اضافی بوجھ ڈالتے ہوئے سبسڈی کھاد اور گھریلو شعبے کو دیتی ہے۔زرائع کے مطابق کھاد کا شعبہ سبسڈی کی رقم سے زیادہ منافع کما رہا ہے اس کے باوجود فوڈ سیکیورٹی کے نام پر اس کا فائدہ کاشتکاروں تک نہیں پہنچایا گیا۔ برآمد کنندگان نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی غیر حقیقت پسندانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلے یا اقدام سے گریز کریں جس سے برآمدات اورپاکستان میں زرمبادلہ می آمد میں رکاوٹ یا کمی واقع ہواور برآمدی صنعتوں کے لیے رعایتی توانائی ٹیرف کو اضافی بجٹ مختص کرنے اور فوری فراہمی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔

دوسری صورت میں مینوفیکچرنگ کی ناقابل عمل لاگت کے پیش نظر برآمدات متاثر ہوں گی اور وزیر اعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم برآمدات میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی کے ذمہ دار ہوں گے۔ حکومت کوعالمی قرض دینے والی تنظیموں پر انحصار کرنے کے بجائے ان مقامی پاکستانی ایکسپورٹرزاور بزنس کمیونٹی پرا نحصار کرنا چاہیے جو ملک کے لیے زرمبادلہ کما رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ترسیلات بھی پاکستان سے باہر منتقل نہیں کرتے۔

برآمدات کو اس وقت تک بڑھایا نہیں جا سکتا جب تک کہ حکومت آئی ایم ایف اور قرضوں پر انحصار ختم نہیں کرتی اور اپنی مقامی کاروباری برادری اور شہریوں کی حوصلہ افزائی اور ان پر انحصار کرتے ہوئے خود کفالت کی طرف مائل نہیں جاتی۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت ایکسپورٹس کے فروغ اور ترقی کی خاطر مزید ترغیبات اور سہولیات میں اضافہ کرے تاکہ بزنس کمیونٹی ایکسپورٹ کی صنعت لگانے کو ترجیح دیں تاکہ پاکستان کے لئے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہو سکے۔

یہ بات پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم ای) کے مرکزی چیئرمین شہزاد اعظم خان، چیف کوآرڈینیٹر محمد جاوید بلوانی، کاشف ضیاء، زونل وائس چیئرمین (نارتھ)، عبدالرحمان، زونل وائس چیئرمین (ساؤتھ) اور ایگزیکٹو کمیٹی ممبران نے کہی۔اگرچہ اقتصادی بحران سنگینی کا شکار ہے، تاہم کوئی بھی غیر سنجیدہ قدم یا مہم جوئی جو برآمدات پر اثر انداز ہو سکتی ہے جیسا کہ رعایتی توانائی کے نرخوں کو ختم کرنا برآمدات پر تباہ کن اثرات کا باعث بنے گا اور اس اہم برآمدی شعبے کو بین الاقوامی مارکیٹ میں سب سے زیادہ غیر مسابقتی بنا دے گا۔

اس سے معاشی مشکلات بھی کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ موجودہ نقطہ نظر میں صرف برآمد کنندگان ہی پاکستان میں ڈالر لانے کے لیے ہر اول دستے کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری علاقائی مسابقتی ممالک سے سخت مقابلے کے تناظر میں سخت جدوجہد کر رہی ہے۔ رعایتی توانائی کے نرخوں کو کم از کم سالانہ بنیادوں پر منجمد کیا جانا چاہیے کیونکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کو چھ ماہ پہلے سے ایکسپورٹ سودے طے کرنے پڑتے ہیں اور اس طرح سال کے دوران کوئی بھی اچانک تبدیلی یا اضافہ ان کی پوری منصوبہ بندی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور انھیں اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل میںبھاری نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔

پی ایچ ایم اے نے وفاقی وزارت تجارت کی قابل ذکر کاوشوں کو سراہا جس نے برآمدات کو بڑھانے اور کاروبار کو آسان بنانے کے لیے سخت محنت کی ہے اور وزارت کے تعاون اور سہولت کی وجہ سے کاروبار بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ تاہم وزارت تجارت کی کوششوں کو کسی دوسری وزارت کی طرف سے بلاوجہ مداخلت کے ساتھ بیکار یا متاثر نہیں ہونا چاہینے۔ بین وزارتی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کو قومی اقتصادی چارٹر اور برآمدات میں اضافے کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

پی ایچ ایم اے نے گزشتہ روز منعقدہ اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور حکومت کی مدد کے لیے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل برآمدات کو مزید بڑھانے کے لیے تمام کوششیں کرنے اور زیادہ زرمبادلہ کما کر معاشی بحران پر قابو پانے کی قرارداد بھی منظور کی۔ پی ایچ ایم اے نے وفاقی حکومت کو خبردار کرنے کا بھی عزم کیا کہ وہ کسی بھی غیر دانشمندانہ اقدام سے باز رہے جس سے برآمدات بڑھانے کے لیے برآمد کنندگان کی سخت کوششوں کو سبوتاژ کیا جا سکتا ہے اور وزیر اعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم کو برابری کی سطح کو یقینی بنانا چاہیے اور رعایتی توانائی ٹیرف اور ڈیوٹی ڈرا بیک آن لوکل ٹیکسز اینڈ لیویز کی ادائیگی جیسا کہ نئی پانچ سالہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی پالیسی میں وعدہ کیا گیا ہے کو جاری رکھنا چاہیئے ۔

پی ایچ ایم اے نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ قومی مفاد میں معاشی استحکام، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور محصولات میں اضافے کے لیے پانچ ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرز کی حمایت جاری رکھے۔