بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا

300سے افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ مزید نقل مکانی جاری ہے ،شیرانی میں 26 ہزار ایکڑ پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے میں مشکلات کا سامنا ہے

ہفتہ 21 مئی 2022 00:25

شیرانی /کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مئی2022ء) بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا300سے افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ مزید نقل مکانی جاری ہے ،شیرانی میں 26 ہزار ایکڑ پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث آگ شیرانی کے علاقوں شرغلئی، سورلوکی اور چمازئی کے جنگلات میں لگی آگ مزید پھیلنے کاخدشہ ہے۔

محکمہ جنگلات کے مطابق شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ سے چلغوزے اور زیتون کے درخت شدید متاثر ہوئے لہذا جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے فضائی آپریشن تیز کرنے کی ضرورت ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ جنگلات میں لگی آگ کے باعث فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے اور جنگلی حیات بھی متاثر ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ شیرانی میں گزشتہ روز آگ کی زد میں آکر3 افراد جھلس کر جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ آگ خیبر پشتونخوا سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزوں کے جنگل کے زیادہ گھنے حصے میں لگی ہے جس کی لپیٹ میں قریبی انسانی آبادیوں کے آنے کا خطرہ ہے اس لیے لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کردی ہے۔شیرانی کے فارسٹ افسر عتیق خان کاکڑ کے مطابق آگ بجھانے کے لیے جانے والے سات افراد خود آگ کی لپیٹ میں آکر افراد پھنس گئے جن میں سے ایک نے بمشکل جان بچائی۔

اس کے جسم پر کپڑے جل گئے تھے جس نے واپس آکر لوگوں کو اطلاع دی۔ باقی پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کے لیے ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئیں جنہوں نے تین افراد کو زندہ مگر زخمی حالت میں ریسکیو کرلیا ہے جبکہ تین افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاشوں اور زخمیوں کو پہاڑ سے اتارنے میں بھی ہمیں مشکلات پیش آرہی ہیں، آگ کی شدت کے باعث مزید جانی نقصان کا خطرہ موجود ہے۔

فارسٹ افسر نے بتایا کہ یہ آگ (بدھ کی شام کو)خیبر پشتونخوا میں لگی اور وہاں سے پھیلتے ہوئے بلوچستان کے ضلع شیرانی کی یونین کونسل شرغلی، سرغلئی اور تخت سلیمان کے علاقوں تک پہنچ گئی جہاں باقی علاقوں کی نسبت چلغوزوں کے زیادہ گھنے جنگلات واقع ہیں۔ 24 گھنٹوں میں یہ آگ 10 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیل چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پشتونخوا سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاع شیرانی اور موسی خیل میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں واقع چلغوزوں اور زیتون کے قدرتی جنگلات میں گذشتہ دس دنوں کے دوران تیسری مرتبہ آگ لگی ہے۔

موسی خیل میں آگ پر تیسرے دن قابو پالیا گیا جبکہ شیرانی کے علاقے دانا سر تور غر میں لگنے والی آگ کو دن گزرنے کے باوجود بجھایا نہیں جاسکا تاہم اسے مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔دس دنوں میں آگ نے 20 کلومیٹر رقبے پر پھیلے لاکھوں درخت اور جڑی بوٹیوں کو تباہ کردیا جبکہ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نئی آگ کی شدت گذشتہ ہفتے لگنے والی آگ سے بہت زیادہ ہے۔

آگ کی تپش اتنی زیادہ ہے کہ 700 گز سے زیادہ نزدیک جانا ممکن نہیں۔ درختوں پر لگی آگ کے شعلے بلندی سے نیچے گر رہے ہیں جس کی وجہ سے ریسکیو کا کام بہت مشکل ہوگیا ہے۔کمشنر ژوب ڈویژن بشیر بازئی کا کہنا ہے کہ آگ کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اسے پیدل جاکر بجھانا ممکن نہیں لگ رہا اس لیے ہم نے صوبائی اور مرکزی حکومت سے مدد مانگی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے اور آرمی ایوی ایشن نے فضائی آپریشن شروع کیا، دو ہیلی کاپٹروں نے ژوب میں سبکزئی ڈیم سے پانی بھر کر آگ بجھانے کی کوشش کی مگر وہ مثر ثابت نہیں ہوئی۔

فیصلہ کیا گیا تھا کہ دو ہیلی کاپٹر دن میں تین مرتبہ چکر لگائیں گے مگر فضائی جائزہ لینے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آگ کی شدت زیادہ ہے اور اسے اتنی آسانی سے بجھایا نہیں جاسکتا۔کوئٹہ میں پرونشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے انچارج محمد یونس کے مطابق آگ بجھانے کے لیے گرانڈ پر ہونے والی کوششیں مثر ثابت نہیں ہورہیں اس لیے فضائی آپریشن شروع کیا گیا ہے۔

ہم نے این ڈی ایم اے اور فوج سے مزید دو سے تین ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔خیال رہے کہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں یہ دنیا میں چلغوزوں کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے، اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ایک اندازے کے مطابق شیرانی میں 26 ہزار ایکڑ پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے۔

شیرانی میں چلغوزوں کے جنگلات کی بحالی کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے یحیی موسی خیل کے مطابق متاثرہ علاقے میں نہ صرف چلغوزوں، زیتون اور پھلائی کے قیمتی جنگلات واقع ہیں بلکہ یہاں بہت سے نایاب جنگلی جانور اور پرندے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں آگ کی وجہ سے سخت نقصان پہنچا ہے۔متاثرہ علاقے کے قبائلی رہنما ملک عبدالستار نے بتایا کہ چلغوزوں کے جنگلات حکومت نہیں بلکہ قبائل کی ملکیت ہیں جہاں سے وہ ہر سال کروڑوں اربوں روپے کا چلغوزہ حاصل کرتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ اب ہم درختوں کے جلنے سے نہیں بلکہ اپنے گھروں کے تباہ ہونے سے ڈر رہے ہیں کیونکہ آگ بہت تیزی سے آبادی کی طرف پھیل رہی ہے۔

ان کے بقول متاثرہ علاقے میں 15 سے 20 گاں واقع ہیں جن میں سینکڑوں لوگ رہائش پذیر ہیں، بعض ایسے بھی گھر ہیں جس کے اندر چلغوزے کے درخت واقع ہے، اگر آگ آبادی تک پھیل گئی تو مزید انسانی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے اہلکار مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر آگ بجھانے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں، یہ ان کے بس کی بات نہیں اس لیے وفاقی و صوبائی حکومتیں اور فوج آگ بجھانے کی کوششوں میں ہماری مدد کریں۔

فارسٹ افسر عتیق کاکڑ کے مطابق متاثرہ علاقے سے اب تک 300 سے زائد افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ باقی لوگ بھی اپنا قیمتی سامان اور سب کچھ چھوڑ کر صرف بال بچوں کو لے کر جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے ہیں۔علاقے میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم اشر تحریک کے بانی سالمین خپلواک کا کہنا ہے کہ بار بار جنگلات میں آگ لگنا کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہوسکتی، یہ کوئی سازش ہے اور اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال نومبر میں موسی خیل میں زیتون کے جنگلات میں آگ لگنے سے 800 درخت تباہ ہوگئے تھے ہم نے اس وقت تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر حکومت نے اسے نظرانداز کیا۔سیکرٹری جنگلات بلوچستان دوستین جمال دینی کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے واقعات کی تحقیقات کرانا مقامی انتظامیہ کا کام ہے