جنوبی ایشیا: شدید گرمی کے باعث لاکھوں افراد کے روزگار متاثر

DW ڈی ڈبلیو پیر 23 مئی 2022 20:00

جنوبی ایشیا: شدید گرمی کے باعث لاکھوں افراد کے روزگار متاثر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مئی 2022ء) نئی دہلی کا رہائشی پھل فروش محمد اقرار تپتی دھوپ میں پریشان حال ہے۔ اسے فکر ہے کہ آج بھی اسے ہر روز کی طرح گلے سڑے آموں اور خربوزں کو پھینکنا پڑے گا۔ اس 38 سالہ پھل فروش کے پاس فریج کی سہولت نہیں ہے۔ شدید گرمی کے باعث اسے ہر ہفتے تین ہزار بھارتی روپے یا قریب چالیس ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جو کہ اس کی کل آمدنی کا قریب نصف ہے۔

دن کے آخر میں وہ یہ گلے سڑے پھل سڑکوں پر پھرتے جانوروں کو دے دیتا ہے۔ پوری آستینوں والی شرٹ اور سر پر ٹوپی پہنے اقرار کا کہنا ہے، ''گرمی بہت شدید ہے۔ مجھے ایک دن اے سی یا فریج خریدنا پڑے گا۔‘‘

اس ہفتے کے آغاز میں نئی دہلی میں بارش اور طوفان کے باعث درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو لاکھوں افراد کے لیے سکون کا باعث بنا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اسی ہفتے کے آخر میں نئی دہلی میں درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ مئی کے وسط میں نئی دہلی میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

پاکستان بھی شدید متاثر

پاکستان کے کئی شہروں میں بھی گرمی کی شدید لہر نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ بھارت، انڈونیشیا اور چین سمیت پاکستان کا شمار ان انتہائی حساس ممالک میں ہوتا ہے جہاں شہریوں کی بہت بڑی تعداد کو شدید گرمی سے جڑے خطرات کا سامنا ہے۔

پاکستان میں گرمی کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ گرمی کی تازہ لہر میں پاکستانی شمالی علاقوں میں کم از کم دو بڑے پل سیلابی پانی سے تباہ ہوگئے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیس کے صرف ایک فیصد کے اخراج کا ذمہ دار ہے لیکن اس ملک کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں ہوتا ہے۔

کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟

کراچی میں اربن پلاننگ کے کنسلٹنٹ فرحان انور کا کہنا ہے کہ شہر کے انتہائی غریب افراد گرمی کی لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ گرمی کی لہر کی شدت شہر میں کنکریٹ کی بلند عمارتوں کے باعث زیادہ ہو گئی۔ انور کے مطابق سڑکوں پر گاڑیوں کے رش اور درختوں اور ہریالی میں کمی کراچی جیسے شہروں کو مزید گرم بنا رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے پہلے 'ہیٹ ایکشن پلان‘ کو سن 2013 میں نافذ کیا گیا تھا۔ سن 2010 میں اس شہر میں گرمی کی شدید لہر کے باعث بارہ تیرہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس پلان کے تحت شہریوں کو موسم کے حوالے سے بر وقت میسیجز بھیج دیے جاتے ہیں۔ اب اس پلان کو بھارت بھر میں 130 شہروں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اس پلان کے تحت لوگوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ اے اسی والی کون سی سرکاری عمارات، دکانوں ، مندروں وغیرہ کا رخ کر سکتے ہیں۔

یہ معلومات کچھ افراد کی زندگیاں بچا سکتی ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی عمارتوں کی تعمیر کیا جانا چاہیے جن کی چھتیں گرمی کی تپش کو روک سکیں۔

صرف بھارت میں ہی تین سوملین افراد شدید گرمی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس سال گرمی کے باعث انڈیا میں پچیس افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہر کو پریشانی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کڑے اقدامات بروقت نہ اٹھائے گئے تو افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک شدید موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات کا سامنا کریں گے۔

ب ج، ع ح (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)