اقوام متحدہ میں روسی سفیر بورس بونڈاریف یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاجاً مستعفی

DW ڈی ڈبلیو منگل 24 مئی 2022 12:00

اقوام متحدہ میں روسی سفیر بورس بونڈاریف یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاجاً ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2022ء) اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مشن میں قونصلر کے عہدے پر فائز سینیئر سفارت کار بورس بونڈاریف نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنے رفقائے کار کو ایک بیان ارسال کیا جس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر یوکرین میں ''جارحانہ جنگ مسلط کرنے‘‘ کی نکتہ چینی کی گئی ہے۔

بونداریف نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،''میں ہر روز کی طرح ہی پیر کی صبح مشن کے دفتر گیا، میں نے اپنا استعفٰی دیا اور وہاں سے باہر نکل گیا۔

‘‘ انہوں نے بعد میں ایک بیان جاری کیا جو جنیوا میں سفارتی مشنوں کو بھیجا گیا۔ اس بیان میں انہوں نے یوکرین پر فوجی حملے کی مذمت اور روس کی وزارت خارجہ کی نکتہ چینی کی ہے۔

(جاری ہے)

یو این واچ نامی ایک ایڈوکیسی گروپ کی طرف سے شائع کردہ بیان میں بونڈاریف نے کہا،''چوبیس سال کے اپنے سفارتی کیریئر میں میں نے خارجہ پالیسی میں بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن میں اپنے ملک کے حوالے سے اتنا شرمندہ کبھی نہیں ہوا جیسا کہ اس برس 24 فروری کو ہوا۔

‘‘

ماسکو کا فی الحال کوئی ردعمل نہیں

خیال رہے کہ 24 فروری کو ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین سے ''نازیت کو ختم کرنے‘‘کے لیے وہاں''خصوصی فوجی آپریشن‘‘ کی کیا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے،''یوکرین اور درحقیقت پوری مغربی دنیا کے خلاف پوٹن نے جو جارحانہ جنگ شروع کی ہے، یہ صرف یوکرینی عوام کے خلاف ہی جرم نہیں ہے بلکہ روس کے عوام کے خلاف بھی انتہائی سنگین جرم ہے۔

‘‘

روس نے فی الحال اس پر کوئی تبصر ہ نہیں کیا ہے۔

بورس بونڈاریف کون ہیں؟

اکتالیس سالہ بونڈاریف روسی وزارت خارجہ کے ساتھ گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ تھے۔ وہ جنیوا میں روسی مشن میں سن 2019سے قونصلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

بونڈاریف کا استعفٰی، ایک روسی سفارت کار کے طورپر اختلاف، نکتہ چینی اور بالخصوص جنگ سے متعلق ماسکو کے بیانیہ کے حوالے سے اپنی نوعیت کا ایک نادر واقعہ ہے۔

یہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب پوٹن کی حکومت فوجی حملے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرنا چاہتی ہے۔

بونڈاریف نے اپنے بیان میں مزید کہا،''جن لوگوں نے اس جنگ کا منصوبہ بنایا وہ صرف، اقتدار میں ہمیشہ رہنا، بے رونق شاندار محلوں میں زندگی گزارنا، آرام دہ کشتیوں پرسمندروں کی سیر کرنا، لامحدود اختیارات اور جوابدہی سے مکمل چھوٹ چاہتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے روسی وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف پر بھی سخت نکتہ چینی کی، جو پوٹن کی فوجی کارروائی کے زبردست حامی ہیں۔ بونڈاریف کا سرگئی لاوروف کے حوالے سے کہنا تھا،''اٹھارہ برسوں میں وہ پیشہ ورانہ اور دانشورانہ بلندیوں تک پہنچے اور ہمارے بہت سارے رفقاء کار انہیں انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن اب وہ ایک ایسے شخص ہوگئے ہیں جو متنازع بیانات دیتا رہتا ہے اور جوہری ہتھیاروں سے دنیا کو ڈراتا رہتا ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا،''آج روسی وزارت خارجہ سفارت کاری کا ذریعہ نہیں بلکہ جنگی جنون، جھوٹ او رمنافرت پھیلانے کا ذریعہ رہ گئی ہے۔‘‘

روسی سفارت کار نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ کہ انہیں اب تک روسی عہدیداروں کی جانب سے کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا،''کیا میں ماسکو کی طرف سے ممکنہ ردعمل پر فکر مند ہوں؟جی ہاں مجھے اس پرفکر مند ہونا چاہیے۔

‘‘

بونڈاریف کا کہنا تھا کہ ان کا معاملہ ایک مثال بن سکتا ہے۔ ان کے بقول،''اگر مجھے سزا دی گئی تو دیگر افراد جو ایسا کرنا چاہتے ہیں، وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا،''میں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کیا ہے۔ لیکن میں اپنی سلامتی کے حوالے سے فکر مند ضرور ہوں۔‘‘

ج ا/ ک م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)