سینیٹ کے ارکان کی بھارت کی طرف سے ممتاز کشمیری حریت لیڈر یاسین ملک کو جھوٹے مقدمے میں سزا سنانے کی مذمت

بدھ 25 مئی 2022 14:54

سینیٹ کے ارکان کی بھارت کی طرف سے ممتاز کشمیری حریت لیڈر یاسین ملک کو ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 مئی2022ء) سینیٹ کے ارکان نے بھارت کی طرف سے ممتاز کشمیری حریت لیڈر یاسین ملک کو جھوٹے مقدمے میں سزا سنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے ظالمانہ ہتھکنڈے ایک جیسے ہیں، کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے، خواتین کی عصمت دری ہو رہی ہے، بھارت کے ساتھ تجارت کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ہمیں کشمیر اور بھارت کے حوالے سے ایک واضح پالیسی دینی چاہیے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں یاسین ملک کی جھوٹے مقدمے میں سزا کی مذمت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، وہاں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، عالمی برادری اور او آئی سی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، اس وقت ملک میں گرفتاریوں اور لانگ مارچ کو روکنے کے لئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ بلا جواز ہیں۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مسلمانوں کی غیرت کو للکار رہی ہے، یاسین ملک کی سزا کے خلاف پوری امت مسلمہ کو آواز بلند کرنی چاہیے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایک کینگرو کورٹ نے یاسین ملک کو سزا سنائی ہے، مقبوضہ کشمیر کیں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت وہی کارروائیاں کر رہا ہے جو اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں کر رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں چار لاکھ نئے ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، مسئلہ کشمیر پر پوری قوم کی ایک آواز ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہونی چاہیے، ہمیں کشمیر اور بھارت سے متعلق واضح پالیسی دینی چاہیے، عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کے لئے یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کو کشمیر سے متعلق خصوصی نمائندہ مقرر کیا جانا چاہیے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ 73 سال سے کشمیر کا مسئلہ موجود ہے لیکن اس کے حل کی جوئی صورت نظر نہیں ا ٓ رہی،یہ جاننا چاہیے کہ بھارت کے چہرے کو اتنے ظلم و بربریت کے باوجود بے نقاب کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی 9 لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں بیٹھی ہے، کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، انسانی حقوق پامال کئے جا رہے ہیں جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی، مقبوضہ کشمیر میں جیلیں بھر دی گئی ہیں، مودی نے گجرات میں خون کی ندیاں بہائیں، بھارت ایک سوچ اور درندگی کا نام ہے، انسانیت کی قدر و منزلت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، کشمیر ہماری روح، سوچ اور خوابوں کا حصہ ہے، اس کی تعبیر کے لئے ہمیں کاغذ اور قلم سے آگے نکل کر سوچنا چاہیے، پاکستان کی اس وقت کی صورتحال اور مقبوضہ کشمیر کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں ہے، میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا تھا لیکن میں نے کبھی مقبوضہ کشمیر کے حالات سے کبھی موازنہ کر کے پیش نہیں کیا، ملک کی صورتحال کو بھارت سے تشبیہہ نہیں دینی چاہیے۔

سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ یاسین ملک کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں، کشمیر کے معاملے ہر ہمیں سیاسی اختلافات بھلا کر متحد ہو جانا چاہیے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پاکستان کے عوام مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے، سینیٹ کے ارکان کا ایک وفد بنا کر ہمیں تمام غیر ملکی سفارتخانوں میں جا کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاجی مراسلہ دینا چاہیے۔

سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، حریت رہنمائوں جو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے، عالمی برادری جو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ امت مسلمہ کی طرف سے نقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر موثر طریقے سے آواز نہیں اٹھائی جا رہی، ہمیں باہمی اختلافات بھلا کر کشمیریوں کے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔

سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ یاسین ملک اور دیگر کشمیری رہنمائوں نے تحریک آزادی میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، پاکستان کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سینیٹر گردیپ سنگھ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، ہم مل کر اسے بھارتی تسلط سے آزاد کرائیں گے۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ کشمیری حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں، عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لے۔

سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ یاسین ملک کو سزا بھارت کے عدالتی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے، مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے، پاکستان کو کشمیر کی ازادی کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں اس وقت جو صورتحال ہے، خانہ جنگی کا خدشہ ہے، سیاسی سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ابھی بھی وقت ہے حالات کو بگڑنے سے بچا لیں، ملک کو قانون کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اگر نظام کو نقصان پہنچا تو ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہو گس تو ہم اپنی ازاد خارجہ پالیسی بنا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داروں کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کے مشورے دیئے جاتے ہیں لیکن بھارت کے ساتھ اس وقت تک تجارت نہیں ہو سکتی جب تک بھارت کشمیریوں کی نسل کشی، آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں جیسے اقدامات واپس نہیں لیتا۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے معاملے پر دہرامعیار نہیں چل سکتا، یوکرین کے معاملے پر یورپی ممالک کا موقف کچھ اورہے اور مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر مختلف کیوں ہے۔ سینیٹر مولانا فیض محمد نے کہا کہ او آئی سی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے لیکن آپس کے اختلافات کی وجہ سے امت مسلمہ مسائل کا شکار ہے۔ سینیٹر اسد جونیجو نے کہا کہ پاکستانی عوام کی آواز مسئلہ کشمیر پر ایک ہے، اقوام متحدہ نے اس معاملے پر قراردادیں منظور کر رکھی ہیں لیکن ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا، عالمی ادارہ کو اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود اپنے تشخص کو بہتر کرنے میں لگا ہوا ہے، ہمیں اسے دنیا بھر میں بے نقاب کرنا چاہیے، پاکستان کے دوست ممالک میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے پارلیمانی کانفرنسز منعقد کرانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے کہا کہ یاسین ملک کی سزا کی شدید مذمت کرتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے کرفیو کا سماں ہے، لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔

سینیٹر فدا محمد خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام کشمیری عوام کے ساتھ جذباتی لگائو رکھتے ہیں، پوری دنیا میں مسلمان مسائل کا شکار ہیں، معاشی طور پر جب ہم مضبوط نہیں ہوں گے اس وقت تک دنیا میں موثر طریقے سے ہماری آواز نہیں سنی جائے گی۔ سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس معاملے پر مسلمان ممالک ہمارے ساتھ کیوں تعاون نہیں کر رہے، ہمیں گروہی، علاقائی اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر ملک کے لئے کام کرنا چاہیے۔

سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ بھارت نے یاسین ملک کو نہیں ان کی سوچ اور فکر کو سزا سنائی ہے لیکن اس سے یاسین ملک اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کا عزم متزلزل نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ صرف مذمت کرنے سے نہیں عملی اقدامات سے مسئلہ کشمیر حل کرانا ہو گا، اگر تمام مسلمان اکٹھے نہیں ہوتے تو بھی ہم خیال ممالک کو ساتھ لے کر بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا چاہیے۔ سینیٹر کیشو بائی نے کہا کہ مودی حکومت کشمیریوں کی آواز دبانا چاہتی ہے، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جب مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری ختم کی جا رہی تھی اس وقت آواز اٹھانی چاہیے تھی، مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہمیں ان کی آواز بننا ہو گا۔