آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ’’1857ء کی جنگ آزادی اور سرسید احمد خان‘‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد

جمعرات 26 مئی 2022 23:24

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مئی2022ء) 1857ء کی جنگ کا جو آغاز ہوا وہ ابھی ختم نہیں ہوئی، 1947ء میں ہم نے جزوی کامیابی حاصل کی اب ہمیں پوری آزادی حاصل کرنے لیے سوچنا چاہیے، آج جو قوانین ہم پر لاگو کیے جاتے ہیں یہ انگریزوں کے دور میں بنے ، جو آئین بنائے گئے اس کے ماڈل باہر تھے سوائے قراردادِ مقاصد کے۔ آپ کے پاس اپنا کچھ نہیں، ہمیں یہ دن اور مہینہ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اب ہمیں مکمل آزاد ہونا ہے، میں صدر آرٹس کونسل محمد احمدشاہ کا مشکور ہوں جنہوں نے تاریخ کے بھولے ہوئے موضوع کو یاد دلایا۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر ضیاء الحسن نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ’’1857ء کی جنگ آزادی اور سرسید احمد خان‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا، انہوں نے بتایا کہ مسلمان اور ہندوئوں کی زندگی اٹھارہ سو ستاون کے بعد الگ ہوئی اس سے پہلے سب ہندوستانی تھے ، مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ یہاں حملہ آور ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں اور انگریزوں میں کوئی فرق نہیں تھا، حملہ آوروں نے ہندوستان کو اپنا ملک بنالیا اور یہاں کی ثقافت کے ذریعے نئی تہذیب ہندوستان میں پیدا ہوئی جو ساڑھے تین ہزار سال تک قائم رہی، اس کے بعد جب مسلمان آئے تو ایک نئی تہذیب بنی جوکہ مشترکہ تہذیب کے طور پر نمایاں ہوئی، افغانستان ، عرب ممالک اور مختلف خطوں سے جو اپنی تہذیبیں لے کر آئے وہ سب مختلف تھیںتہذیبی عناصر ملنے سے ایک تہذیب بنی جس کو مختلف نام دیے گئے جن میں ہنداسلامک تہذیب، ہند ایرانی تہذیب، مشترکہ تہذیب اور دیگر نام شامل تھے، ڈاکٹر جعفر احمد نے موضوع سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اٹھارہ سو ستاون تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے اسی طرح ہندوستان کی تاریخ کا حامل سال ہے ، سرسید احمد خان 1818ء میں پیداہوئے اور 1898ء میں وفات پائی، سرسید احمد خان کی زندگی بڑی اہمیت کی حامل تھی، اٹھارہ سو ستاون کے بعد آپ چالیس پینتا لیس سال زندہ رہے انہوں نے بتایا کہ سرسید بغاوت ہے اور انگریز حکمرانی کے بالکل مخا لف نہیں تھے انہوں نے جن لوگوںکو مجاہدین آزادی کہا ان کے بارے میں شہدے اور بد معاش کا لفظ استعمال کیاتو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے جنگ آزادی کسی معنوں میں نہیں مانتے تھے ، ان کے خیالات اسباب بغاوت ہند میں لکھنے اور چھاپنے کامقصد یہ تھا کہ برطانیہ کے ہاؤس آف کومن کے اراکین کو یہ بتا یا جائے کہ ہندوستان میں کیاہوا اور انگریز حکومت نے کیا غلطیاں کی تھیں جس کی بناء پر 1857ہوا، لیکن بعد کے چار عشروں میں ان کا فوکس یہ تھا کہ پاکستان کے مسلمانوں کے لئے اب ان حالات میں بہتری کا راستہ کیا ہوسکتا ہے ، انگریزکے ساتھ براہ راست مزاحمت اور لڑائی سے بہتر ہے کہ مسلمان خود کو مستقبل کے لیے تیار کریں اور انگریزی تعلیم حاصل کریں، جس کے لیے انہوں نے مہم شروع کرکے براہِ راست انگزیزی کی تعلیم کو ترجیح دی، انہوں نے کہاکہ آج بھی ہم سرسید کے نقش قدم پر چل کر ملک میں تعلیمی انقلاب بھی لاسکتے ہیں مگر کنویں کے مینڈک پیدا کرنے کے بجائے اہل انسان پیدا کرنا ہوں گے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر نے ڈاکٹر معین الدین عقیل کا مقالہ پڑھ کر سنایااور نظامت کے فرائض انجام بھی دیے۔