افغانستان: اقوام متحدہ کے ایلچی نے خواتین کے حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 27 مئی 2022 11:40

افغانستان: اقوام متحدہ کے ایلچی نے خواتین کے حقوق کی پامالیوں پر تشویش ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2022ء) افغانستان کے حکمران طالبان جہاں خواتین پر آئے دن نئی پابندیاں عائد کر رہے ہیں، وہیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اسی پس منظر میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ بینیٹ نے ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جمعرات کے روز انہوں نے طالبان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے حکمران، جس بڑے پیمانے پر زیادتیاں ہو رہی ہیں اس کی شدت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ان کے مطابق بہت سی زیادتیاں خود ان کے نام پر ہو رہی ہیں، جن پر ان زیادتیوں کا ازالہ کرنے اور پوری آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔

گزشتہ ماہ ہی بینیٹ کو افغانستان کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے پہلی بار افغانستان کا اپنا 11 روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے اختتام پر نامہ نگاروں سے بات چیت میں انہوں نے کہا، "میں نے ملک بھر میں انسانی حقوق کی تنزلی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، اور خواتین کو عوامی زندگی سے پوری طرح سے مٹانے کا معاملہ تو خاص طور پر تشویشناک ہے۔

"

ان کا کہنا تھا، "میں حکام پر زور دیتا ہوں کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق ان چیلنجوں کو تسلیم کریں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں اور اپنے قول و فعل کے درمیان فرق کو ختم کریں۔"

بینیٹ کا دورہ افغانستان ایک ایسے وقت ہوا، جب طالبان نے چند روز قبل ہی لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے لباس اور ان کے باہر نکلنے سے متعلق سخت ہدایات جاری کی تھیں۔

ان کی روانگی سے قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس معاملے پر اپنا ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے طالبان سے افغان لڑکیوں اور خواتین کے انسانی حقوق اور ان کی آزادی کو محدود کرنے والی پالیسیوں کو، "فوری طور پر واپس لینے" کا مطالبہ کیا تھا۔

حالیہ ہفتوں میں طالبان نے اس طرح کے احکامات جاری کیے جن میں خواتین کو اپنی آنکھوں کے علاوہ اپنے چہرے کو ڈھانپنے کا پابند کیا گیا۔

ٹی وی پر آنے والی خواتین رپورٹرز پر بھی ایسی ہی پابندیاں لگا دی گئیں اور یہ حکم صادر کر دیا گیا کہ اس پر عمل نہ کرنے والے خواتین کے قریبی مرد رشتہ داروں کو سزا دی جائے گی۔

طالبان نے چھٹی جماعت کے بعد افغان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی پہلے سے ہی عائد کر رکھی ہے۔ خواتین سے متعلق طالبان کے یہ تمام فرمان اور پالیسیاں تقریبا اسی طرح کی ہیں جب سن 1996 سے 2001 کے درمیان کے اپنے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے نافذ کی تھیں۔

اپنے اس پہلے دورے کے دوران رچرڈ بینیٹ نے طالبان رہنماؤں سے بات چیت کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے سول سوسائٹی کے گروپوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ہزارہ سمیت دیگر اقلیتی برادریوں سے ملاقات کی۔

افغانستان میں شہریوں کے خلاف مسلسل بم دھماکے ہوتے رہے ہیں، جن میں اکثر ہزارہ نسل کے شیعہ مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایسے بیشتر حملوں کی ذمہ داری، طالبان کے سخت حریف گرو، اسلامک اسٹیٹ نے تسلیم کی ہے۔

بینیٹ نے ہزارہ، دیگر شیعہ گروپ اور صوفیاء کو نشانہ بنانے والے بم دھماکوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حملے، "تیزی سے منظم ہوتے جا رہے ہیں اور ایک منظم پالیسی کے عناصر کی عکاسی کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ "انسانیت کے خلاف جرائم کی علامات" کے عکاس ہیں۔

بدھ کے روز ہی سلسلہ وار دھماکوں میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک واقعے میں کابل کی ایک مسجد میں بم پھٹا، جہاں لوگ نماز ادا کر رہے تھے۔ اس میں پانچ افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔ شمالی شہر مزار شریف میں تین منی وینز بم دھماکوں کی زد میں آئیں، جس میں نو افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔

طالبان کے نائب ترجمان انعام اللہ سمنگانی کا کہنا ہے کہ حکام نے اقوام متحدہ کے ایلچی کے بیان کردہ مسائل پر توجہ دی ہے اور وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے معاملے پر کام کر رہے ہیں۔

بینیٹ نے میں دھمکیوں، ہراساں کیے جانے، حملوں، گرفتاریوں، اور بعض صورتوں میں قتل یا گمشدگی کی "بڑی تعداد" رپورٹوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ حکام کی جانب سے بھی صحافیوں، وکلاء بردری اور ججوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کو پرامن اجتماع کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے لیے بھی نشانہ بنا یا جاتا ہے۔

بینیٹ نے کہا کہ طالبان ایک ایسے دو راہے پر کھڑے ہیں، جہاں یا تو معاشرہ مزید مستحکم ہو جائے گا اور ایک ایسی جگہ ہو گی جہاں، "ہر افغان کو آزادی اور انسانی حقوق حاصل ہوں گے، ورنہ پھر یہ تیزی سے محدود اور پابندیوں کی جگہ بن جائے گی۔"

ص ز/ رب (روئٹرز، اے ایف پی)